اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 ستمبر 2025ء) پیرس سے منگل نو ستمبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان واقعات کا پیش آنا اس خطرے کی طرف اشارہ ہے کہ فرانس بالخصوص پیرس میں مسلم دشمنی کے جذبات بڑھتے جا رہے ہیں۔ پیرس کی پولیس کے سربراہ لاراں نُونے نے ایک پریس کانفرنس میں کہا، ''مختلف علاقوں میں مساجد کے سامنے سؤروں کے سر رکھ دیے گئے۔
ان میں سے چار واقعات پیرس شہر میں مساجد کے سامنے پیش آئے جبکہ باقی پانچ شہر کے مضافاتی علاقوں میں مسلم عبادت گاہوں کے سامنے۔‘‘پولیس سربراہ نے مزید کہا، ''ہم اس وقت اس امکان کو بھی رد نہیں کر سکتے کہ ہمیں اسی طرح کے حالات میں سؤروں کے مزید سر بھی مل سکتے ہیں۔‘‘
لاراں نُونے صحافیوں کو بتایا کہ ان واقعات کے حوالے سے ہر کسی کو ''انتہائی محتاط‘‘ رہنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ ماضی میں پیش آنے والے ایسے واقعات کی طرح ان کا تعلق بھی ''بیرونی مداخلت‘‘ سے ہو سکتا ہے۔
(جاری ہے)
اس سال جون کے اوائل میں فرانسیسی پولیس نے تین ایسے سربیائی باشندوں کو گرفتار کر کے ان پر فرم جرم عائد کر دی تھی، جن پر الزام تھا کہ وہ یہودیوں کی املاک یا مقامات پر توڑ پھوڑ کے مرتکب ہوئے تھے۔ تب پولیس کو یہ شبہ بھی تھا کہ ان واقعات میں مشتبہ ملزمان کو روس کی حمایت حاصل تھی۔
ایک جگہ پر فرانسیسی صدر کا نام بھی
پولیس کے مطابق پیرس میں جن مقامات پر مساجد کے سامنے سؤروں کے سر پھینکے گئے، ان میں سے ایک جگہ پر ساتھ ہی نیلے رنگ سے فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کے نام کا آخری حصہ 'ماکروں‘ بھی لکھ دیا گیا تھا۔
کسی بھی مذہب کی عبادت گاہوں کی طرح مسلمانوں کے لیے ان کی مساجد بھی انتہائی قابل احترام مذہبی جگہیں ہوتی ہیں۔ لیکن ایسی کسی عبادت گاہ کے سامنے سؤر کا سر پھینک دینا اس لیے انتہائی تشویشناک ہے کہ اسلام میں سؤر کھانا حرام ہے اور نہ ہی مسلمان سؤر کے جسم یا گوشت سے تیار کردہ کوئی مصنوعات کھا سکتے ہیں۔
ایسے صورت میں مساجد کے سامنے 'پِگ ہیڈز‘ کا پھینکا جانا مسلمانوں اور اسلام سے نفرت کی علامت ہی سمجھا جاتا ہے جو بین المذاہبی ہم آہنگی کے لیے کسی بھی طرح فائدے مند نہیں۔
اسی لیے پیرس پولیس کے سربراہ نُونے نے ان واقعات کو نفرت انگیز اور اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے ان کی بھرپور مذمت کی۔
ادارت: شکور رحیم