- تل ابیب میں احتجاج اور صدر ٹرمپ سے مطالبات
- حماس کا جنگ بندی منصوبے پر ’مثبت ردعمل،‘ امریکہ کو معاہدے کی امید
- غزہ میں چوبیس گھنٹوں کے دوران اسرائیلی حملوں میں کم از کم 138 فلسطینی ہلاک
تل ابیب میں احتجاج اور صدر ٹرمپ سے مطالبات
تل ابیب میں چار جولائی بروز جمعہ امریکہ کے یوم آزادی کے موقع پر امریکی سفارت خانے کے باہر اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ اور ان کے ہمدردوں نے احتجاج کیا۔
انہوں نے صدر ٹرمپ کے ’’ون بگ بیوٹی فل بل‘‘ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ’’ایک خوبصورت معاہدہ، ایک خوبصورت یرغمالی معاہدہ‘‘ کا مطالبہ کیا۔مظاہرین نے علامتی طور پر 50 خالی کرسیاں ایک شبت (یہودی شب آرام) کی میز پر رکھیں، جو اب بھی یرغمال بنائے گئے افراد کی نمائندگی کر رہی تھیں۔
(جاری ہے)
قریبی بینر پر ٹرمپ کا ٹروتھ سوشل پر پوسٹ کیا گیا پیغام درج تھا: "MAKE THE DEAL IN GAZA. GET THE HOSTAGES BACK!"
اسرائیل کے ایک مذاکراتی اہلکار کے مطابق موجودہ تجویز میں 60 روزہ جنگ بندی کے دوران 10 یرغمالیوں کی واپسی اور 18 دیگر کی لاشوں کی حوالگی شامل ہیں۔
حماس نے سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر کیے گئے دہشت گردانہ حملے میں 1,200 افراد کو ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا لیا تھا، جس کے بعد اسرائیل نے جوابی کارروائی شروع کی، جس میں غزہ پٹی میں وزارت صحت کے حکام کے مطابق اب تک 57,000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔
غزہ میں چوبیس گھنٹوں کے دوران اسرائیلی حملوں میں کم از کم 138 فلسطینی ہلاک
غزہ پٹی میں حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں کم از کم 138 فلسطینی ہلاک ہو گئے۔
خان یونس کے مغرب میں قائم ایک خیمہ بستی پر جمعے کو کیے گئے ایک فضائی حملے میں 15 افراد مارے گئے، جن میں زیادہ تر وہ افراد شامل تھے جو تقریباً دو برس سے جاری جنگ کے باعث بے گھر ہو چکے تھے۔ اس خیمہ بستی کے زیادہ تر مکین ایسے ہی فلسطینی ہیں۔اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے خان یونس میں آپریشن کے دوران شدت پسندوں کو ہلاک کیا، اسلحہ برآمد کیا اور حماس کے مراکز کو تباہ کیا۔
غزہ بھر میں 100 مقامات کو نشانہ بنایا گیا، جن میں مبینہ عسکری تنصیبات، اسلحے کے ڈپو اور راکٹ لانچنگ سائٹس شامل ہیں۔بعد ازاں فلسطینیوں نے جمعے کو ہلاک ہونے والے افراد کی نمازِ جنازہ ادا کی۔
حماس کا جنگ بندی منصوبے پر ’مثبت ردعمل،‘ امریکہ کو معاہدے کی امید
فلسطینی عسکریت پسند تنظم حماس نے کہا ہے کہ اس نے امریکی ثالثی میں طے پانے والے جنگ بندی منصوبے پر ’’مثبت جذبے‘‘ کے ساتھ اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے اور وہ اس پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر فوری بات چیت کے لیے تیار ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ منگل کے روز اعلان کیا تھا کہ انہوں نے غزہ میں 60 دن کی جنگ بندی کے لیے ایک ’’آخری تجویز‘‘ پیش کی ہے اور انہوں نے دونوں فریقوں سے جلد جواب کی توقع بھی ظاہر کی تھی۔
حماس نے جمعے کے روز اپنی ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا، ’’حماس تحریک نے غزہ میں ہمارے عوام پر جارحیت روکنے کے لیے ثالثوں کی حالیہ تجویز پر اپنی داخلی مشاورت اور دیگر فلسطینی گروپوں سے مشاورت مکمل کر لی ہے۔
تحریک نے برادر ثالثوں کو اپنا ردعمل پہنچا دیا ہے، جو ایک مثبت جذبے کا عکاس ہے۔ حماس مکمل سنجیدگی کے ساتھ اس فریم ورک پر عمل درآمد کے لیے بات چیت کے نئے مرحلے میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔‘‘تاہم حماس کے ایک عہدیدار نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ اب بھی غزہ میں امداد تک رسائی، رفح بارڈر کی صورتحال اور اسرائیلی فوج کے انخلا کے واضح شیڈول جیسے نکات پر تحفظات موجود ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے اس حوالے سے باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ حماس کے جواب کا جائزہ لے رہے ہیں۔صدر ٹرمپ نے جمعے کی شب امریکی صدارتی طیارے ایئر فورس ون میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا،’’اگر انہوں نے واقعی مثبت جواب دیا ہے، تو یہ خوش آئند ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اگلے ہفتے غزہ فائر بندی معاہدہ طے پا جائے۔
‘‘ ایک مصری سکیورٹی اہلکار نے بھی تصدیق کی کہ حماس کے جواب میں مثبت اشارے موجود ہیں لیکن چند مطالبات پر مزید بات چیت کی ضرورت ہے۔امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے پیر کے روز واشنگٹن میں ملاقات کے دوران جنگ بندی پر زور دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو بھی جنگ بندی چاہتے ہیں، تاہم اسرائیل کی جانب سے حماس کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ اب بھی برقرار ہے، جس پر حماس بات کرنے سے انکاری ہے۔