اسرائیل کے خلاف سخت موقف کے لیے جرمن چانسلر پر بڑھتا دباؤ

DW ڈی ڈبلیو بدھ 23 جولائی 2025 19:40

اسرائیل کے خلاف سخت موقف کے لیے جرمن چانسلر پر بڑھتا دباؤ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) جرمن چانسلر فریڈرش میرس پر اسرائیل کے بارے میں سخت موقف اختیار کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ان کے اپنے حکومتی اتحاد کے ارکان نے مطالبہ کیا ہے کہ برلن کو درجنوں مغربی ممالک کے اس بیان میں شامل ہونا چاہیے جس میں فلسطینیوں کے 'غیر انسانی قتل‘ کی مذمت کی گئی ہے۔

جرمنیکی قدامت پسند جماعت سی ڈی یو کی قیادت کرنے والے چانسلر میرس اسرائیل پر تنقید کرتے رہے ہیں، تاہم یورپی یونین کے کرائسز مینجمنٹ کمشنر کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور فرانس سمیت 28 مغربی ممالک کی جانب سے پیر کو جاری کیے گئے اس مشترکہ بیان میں جرمنی شامل نہیں تھا، جس میں اسرائیل سے فوری طور پر جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ان ممالک نے غزہ پٹی میں فلسطینیوں کو دی جانے والی امداد کو 'ڈرپ فیڈنگ آف ایڈ‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کہا کہ یہ 'خوفناک‘ ہے کہ امداد کے حصول کے دوران 800 سے زائد شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔

(جاری ہے)

گزشتہ چھ ہفتوں میں امدادی مقامات کے قریب 875 افراد ہلاک ہوئے، اقوام متحدہ

غزہ میں بچوں اور خواتین سمیت مزید چھیالیس فلسطینی ہلاک

میرس کی کابینہ میں بین الاقوامی ترقی کی وزیر اور بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے جماعت ایس پی ڈی کی رکن ریم العبلی رادوفان نے منگل 22 جولائی کے روز کہا کہ وہ اس مشترکہ بیان پر دستخط نہ کرنے کے جرمنی کے فیصلے سے ناخوش ہیں۔

ان کا کہنا تھا، ''اسرائیلی حکومت کو لکھے گئے خط میں 29 شراکت داروں کے مطالبات میرے لیے قابل فہم ہیں۔ میری خواہش ہوتی کہ جرمنی 29 شراکت داروں کی جانب سے بھیجے گئے سگنل میں شامل ہوتا۔‘‘

میرس نے منگل کو دیر گئے کہا تھا کہ یورپی کونسل پہلے ہی ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کر چکی ہے جو ’’عملی طور پر خط میں بیان کردہ مواد سے مماثلت رکھتا ہے۔

‘‘

یورپی کونسل کی طرف سے جون میں جاری کردہ ایک بیان میں غزہ پٹی میں سنگین انسانی صورتحال کی مذمت کی گئی تھی، لیکن اس میں اسرائیل پر تنقید نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی اس میں فلسطینیوں کو رواں ماہ کے اوائل میں اسرائیل کے اعلان کردہ ''ہیومینیٹیرین سٹی‘‘ میں منتقل کرنے کے منصوبے کی مذمت کی گئی تھی۔

میرس کی طرف سے اسرائیل کے بارے میں نقطہ نظر کے حوالے سے تقسیم کی تردید

جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے اس معاملے پر اپنی قیادت میں حکمران اتحاد میں کسی بھی قسم کی تقسیم کی تردید کرتے ہوئے کہا، ''میں ان پہلے لوگوں میں سے ایک تھا جنہوں نے جرمنی میں بھی واضح طور پر کہا تھا کہ وہاں کی صورتحال اب قابل قبول نہیں ہے۔

‘‘

پیر 21 جولائی کو میرس نے کہا کہ انہوں نے جمعے کے روز اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے بات کی اور انہیں ''بہت واضح طور پر بتایا کہ ہم غزہ پٹی کے بارے میں اسرائیلی حکومت کی پالیسی سے متفق نہیں ہیں۔‘‘

تاہم اس اعلامیے میں جرمنی کے دستخط روکنے کا فیصلہ کئی ماہ کے بعد کیا گیا ہے جس میں جرمنی نے عوامی سطح پر اسرائیلی اقدامات پر اپنی تنقید کو روکنے کا خاص خیال رکھا ہے۔

عوامی بیانات کے بجائے بیک ڈور ڈپلومیسی؟

جرمن عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے بارے میں جرمنی کا نقطہ نظر ایک خصوصی ذمہ داری پر منحصر ہے، جسے 'اشٹاٹس ریزوں‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کی وجہ نازی دور میں ہولوکاسٹ کے دور سے جڑی ہے۔ جرمن حکام کا ماننا ہے کہ وہ عوامی بیانات کے بجائے سفارتی بیک چینلز کے ذریعے زیادہ کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔

چانسلر میرس ان چند یورپی رہنماؤں میں سے ایک ہیں، جنہوں نےاسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی عوامی طور پر میزبانی کرنے کی پیش کش کی تھی، حالانکہ دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت نیتن یاہو کے خلاف مبینہ جنگی جرائم کے حوالے سے وارنٹ گرفتاری جاری کر چکی ہے۔

اسرائیل نیتن یاہو کے خلاف الزامات کو مسترد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ سیاسی محرکات پر مبنی ہیں۔

آئی سی سی کا کہنا ہے کہ عدالت کے بانی قانون پر دستخط کرنے والے تمام 27 ممالک، جن میں یورپی یونین کے تمام 27 ارکان شامل ہیں، نیتن یاہو کے ان کے تیاستی علاقے میں داخل ہونے کی صورت میں انہیں گرفتار کرنے کے پابند ہیں۔

جرمن سیاسی جماعت ایس پی ڈی اور حکومتی اتحاد کے شراکت داروں سمیت میرس کے نقطہ نظر کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ہولوکاسٹ کی وراثت اسرائیلی جرائم کو نظر انداز کرنے کا بہانہ نہیں ہو سکتی اور اس کے برعکس ہولوکاسٹ کے بعد ''دوبارہ کبھی نہیں‘‘ کا نعرہ اب غزہ پٹی پر لاگو ہونا چاہیے۔

ایس پی ڈی کے دو سینئر قانون سازوں، خارجہ پالیسی کے ترجمان ادیس احمدووچ اور مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی سفیر رالف مؤٹسینش نے ایک مشترکہ بیان میں کہا، ''غزہ کی صورتحال تباہ کن ہے اور انسانی بحران کی نمائندگی کرتی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کے لیے ''واضح اور فوری نتائج‘‘ ہونا چاہییں، جن میں یورپی یونین اور اسرائیل کے تعلقات سے متعلق معاہدے کی معطلی اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمد کو روکنا شامل ہیں جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی میں استعمال ہوتے ہیں۔

ادارت: کشور مصطفیٰ، مقبول ملک