بھارت میں ہرسال 13 ہزار طالب علم خود کشی کرتے ہیں، رپورٹ

پیر 28 جولائی 2025 16:34

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 28 جولائی2025ء) بھارت میں ہرسال 13 ہزار طالب علم خود کشی کرتے ہیں اور یہ تعداد بھارت میں اپنے ہاتھوں اپنی زندگی ختم کرنے والوں کی کل تعداد کا 7.6 فیصد ہے۔ جرمن نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ اعداد وشمار بھارت میں جرائم کا ڈیٹا مرتب کرنے والے حکومتی ادارے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (این سی آر بی)کے ہیں اور 2022 کے ڈیٹا پر مبنی ہیں، جبکہ 2023 اور 2024 کے حوالہ سے سرکاری اعداد و شمار ابھی جاری نہیں کئے گئے ۔

بھارتی وزیر مملکت برائے تعلیم سکانت مجمدار نے یہ اعداد و شمار پارلیمنٹ میں پیش کیے جہاں بھارتی حکومت نے تسلیم کیا کہ تعلیمی اصلاحات اور ذہنی صحت کے نئے اقدامات کے باوجود ’’شدید تعلیمی دباؤ‘‘ کمزور طلبہ کو متاثر کرتا رہتا ہے۔

(جاری ہے)

تحقیقات اور سرکاری رپورٹوں کے مطابق تعلیمی اور سماجی دباؤ، ادارہ جاتی معاونت کی کمی اور آگاہی کی کمی جیسے عوامل طلبہ میں خودکشی کے رجحان میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

بھارتی نیورو سائیکاٹرسٹ انجلی ناگپال نے کہا کہ میں ان اعداد و شمار کو ان خاموش اذیتوں کی علامت سمجھتی ہوں جو سماجی اصولوں اور توقعات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ نے بچوں کو ناکامی، مایوسی یا غیر یقینی صورتِ حال سے نمٹنے کا طریقہ نہیں سکھایا جاتا ۔ ہم انہیں امتحانات کے لیے تیار کرتے ہیں، زندگی کے لیے نہیں ۔انجلی ناگپال نے کہا کہ ذہنی صحت کی تعلیم کو سکول کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہونا چاہیے، نہ کہ اسے صرف الگ تھلگ سیشنز تک محدود رکھا جائے۔

طلبہ کو اظہارِ خیال کا موقع اور توجہ سے سنے جانے کی جگہ ملنی چاہیے۔ اساتذہ کو صرف لیکچر دینے کے بجائے سننے کی تربیت دی جانی چاہیے۔سوسائیڈ پریوینشن انڈیا فاؤنڈیشن کے بانی نیلسن ونود موسیٰ نے کہا کہ ملک میں پائی جانے والی زہریلی مسابقت ، سخت گریڈنگ سسٹم اور ذہنی صحت کے ناقص ڈھانچے اس بحران کےپس پردہ کارفرما بڑے عوامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ کالجوں کے کونسلرز کو خودکشی کی اسکریننگ، خطرے کی تشخیص اور متاثرہ طلبہ کی کونسلنگ کی تربیت دی جانی چاہیے۔

کیریئرز360 کے بانی اور سی ای او مہیشور پیری نے کہا کہ بدقسمتی سے بعض اوقات طلبہ کو صرف ایک دن کے امتحان کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے اور وہ اس دباؤ کی وجہ سے اپنی جان لے لیتے ہیں۔ ہمیں ان کے تحفظ کا نظام بنانا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ زیادہ تر طلبہ تنہا پڑھتے ہیں اور ان کے پاس کوئی معاون نظام نہیں ہوتا۔ طلبہ کی ضروریات کے مطابق ذہنی صحت کی مربوط سہولیات کی فوری ضرورت ہے۔

دہلی کے ماہر نفسیات آچل بھگت نے کہا کہ کامیابی کی محدود تعریف، صنفی تفریق، تشدد اور روزگار کے مواقع کی کمی طلبہ کی ذہنی صحت کے مسائل میں کردار ادا کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ یا تو آپ ناکام ہیں یا جینیئس۔ ہمارے معاشرتی اور ادارہ جاتی نظام سخت گیر ہیں اور نوجوانوں سے مکالمہ نہیں کرتے۔ یہی احساسِ بے بسی اور مایوسی المیہ بن جاتا ہے۔ان کے مطابق اس تشویش ناک مسئلے کے حل کے سب سے اہم عناصر میں نوجوانوں کی مستقبل سے متعلق فیصلوں میں ان کی شراکت، رہنمائی اور کامیابی کی وسیع تر تعریف کے لیے قابلِ رسائی رول ماڈلز کی تیاری شامل ہے۔

واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے اس صورت حال کو’’خودکشی کی وبا‘‘ قرار دیتے ہوئے مارچ میں 10 رکنی قومی ٹاسک فورس تشکیل دی، جو اس وقت ملک گیر مشاورت، ادارہ جاتی جائزے اور جامع پالیسی کی تیاری میں مصروف ہے۔