سعودی کابینہ کا اجلاس، مشرق وسطی میں پائیدار امن کے لئے مملکت کے موقف کا اعادہ کیا گیا

بدھ 30 جولائی 2025 10:30

ریاض (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 جولائی2025ء) سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی زیر صدارت سعودی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا ،جس میں اراکین نے مشرق وسطی میں پائیدار امن کے حصول کے حوالے سے مملکت کے موقف کا اعادہ کیا ۔ اردو نیوز کے مطابق اجلاس میں سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ صدارت میں مسئلہ فلسطین کے پرامن حل سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس کی حمایت کی گئی۔

اجلاس میں مقامی اور بین الاقوامی حالات زیر بحث آئے اور سعودی سرمایہ کاری وفد کے دورہ شام پر بریفنگ دی گئی۔ کابینہ نے امید ظاہر کی کہ کانفرنس فلسطینی ریاست کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرانے میں تیزی لائے گی اور دو ریاستی حل کے نفاذ کی راہ ہموار ہوگی۔ وزیر اطلاعات سلمان الدوسری نے اجلاس کے بعد بتایا کہ کابینہ ارکین نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی خصوصی ہدایات پرعمل کرتے ہوئے سعودی وفد کےکامیاب دورہ شام کو سراہا جس میں مختلف ترقیاتی شعبوں میں 24 ارب ریال کے 47 معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔

(جاری ہے)

کابینہ نے اقوام متحدہ کے اعلی سطی سیاسی فورم میں مملکت کی شرکت ، حالیہ علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا ۔ مشرق وسطی میں مستقل قیام امن کے لئے مملکت کی کوششوں کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ اراکین نے فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے ارادے کا خیرمقدم کرتے ہوئے دیگر ممالک پر بھی زور دیا کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق اور علاقائی استحکام کی حمایت میں ایسا ہی موقف اختیار کریں۔

کابینہ نے اسرائیلی کنیسٹ کے اس مطالبہ کی شدید مذمت کی جس میں مقبوضہ فلسطین کے مغربی کنارے اور وادی اردن پر کنٹرول حاصل کرنے کا کہا گیا تھا۔ انہوں نے اس بیان کو یکسرمسترد کرتے ہوئے اسے امن کے لئے کی جانے والی کوششوں کے لئے نقصان دہ قرار دیا۔ اراکین نے اسرائیلی خلاف ورزیوں کے حوالے سے مملکت کے اس موقف کا اعادہ کیا جس میں کہا گیا تھا کہ قابض حکام کی جانب سے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزیوں کو سختی سے مسترد کیا جاتا ہے۔

مقامی سطح پر کابینہ نے سرکلر کاربن اکانومی کے حوالے سے مملکت کی کوششوں کا جائزہ لیا اورہونے والی پیش رفت کو سراہا۔ اجلاس میں ایجنڈے میں شامل مختلف موضوعات زیر بحث آئے جن میں شوری کونسل کی مختلف کمیٹیوں کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹس کا بھی جائزہ لیا گیا۔