سندھ، پانچ سال میں غیرت کے نام پر 310، مجموعی طور پر 545 خواتین قتل، 622 کی خودکشیاں

عورتوں پر ہونے والے مظالم میں ریاست، عدالتیں اور پولیس برابر کی شریک ہیں کیونکہ ان کی خاموشی اور بے عملی تشدد کے سلسلے کو جواز فراہم کرتی ہے،امرسندھو

منگل 5 اگست 2025 22:15

حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 اگست2025ء)وومن ایکشن فورم(ڈبلیواے ایف)سندھ کی پانچ سالہ رپورٹ زخم گننا میں انکشاف ہوا ہے کہ صوبے میں 545 خواتین قتل ہوئیں، جبکہ 622 خواتین نے خودکشی کی۔رپورٹ کے مطابق 2020 سے 2025 کے دوران سندھ میں 545 خواتین قتل ہوئیں، 622 خواتین نے خودکشیاں کیں، غیرت کے نام پر 310 قتل، جنسی زیادتی (ریپ)کے 228 واقعات، اغوا یا زبردستی شادی کے 190 کیسز اور ریپ کے بعد قتل کے 51 واقعات رپورٹ ہوئے۔

حیدرآباد پریس کلب میں رپورٹ کی رونمائی کی تقریب میں صحافیوں، وکلا، انسانی حقوق کارکنان، دانشوروں، ڈاکٹروں، خواتین پولیس افسران اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔معروف دانشور اوروومن ایکشن فورم کی رہنما امر سندھو نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ زخم گننا دراصل ان زخموں کی گواہی ہے جو عورتوں کے جسموں اور زندگیوں پر لگائے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ عورتوں پر ہونے والے مظالم میں ریاست، عدالتیں اور پولیس بھی برابر کی شریک ہیں کیونکہ ان کی خاموشی اور بے عملی تشدد کے سلسلے کو جواز فراہم کرتی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ خواتین کی خودکشیاں محض ذاتی فیصلے نہیں بلکہ ریاستی و سماجی ناانصافی کے خلاف ایک خاموش بغاوت ہیں۔ گھریلو تشدد، غربت، تعلیم سے محرومی، پسند کی شادی پر پابندی اور جنسی بلیک میلنگ وہ عوامل ہیں جن کے باعث خواتین خودکشی جیسے انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوئیں۔

وومن ایکشن فورم نے ان خودکشیوں کو سماج کے خلاف خاموش احتجاج قرار دیا ہے۔غیرت کے نام پر قتل کی شرح بھی ہوشربا حد تک بلند رہی۔ رپورٹ کے مطابق 310 خواتین کو کاروکاری، شک، مرضی سے شادی کرنے یا ذاتی انتقام کے نام پر قتل کیا گیا۔ ان میں سے زیادہ تر واقعات میں قاتل قریبی رشتہ دار (شوہر، بھائی، والد)تھے جنہیں قانون کی کمزوری، صلح صفائی اور پولیس کی غفلت کے باعث سزا نہیں ملی۔

رپورٹ نے ان قتلوں کو پدرشاہی نظام کے عورت پر کنٹرول کا سب سے واضح مظہر قرار دیا۔امر سندھو نے کہا کہ خاموشی، غیر فعال قوانین، سماجی جمود اور ریاستی لاپرواہی عورتوں پر ہونے والے مظالم کے بنیادی ہتھیار بن چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام عناصر پدرشاہی سوچ کے تحت عورت کی زندگی، آزادی اور انتخاب پر کنٹرول کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

وومن ایکشن فورم نے اس موقع پر اپنے پانچ مطالبات بھی پیش کیے۔ ان کے مطابق عورتوں پر ہر قسم کے تشدد کو ریاستی جرم قرار دیا جائے، متاثرہ خواتین کے لیے خصوصی عدالتیں اور تحفظ کے مثر نظام قائم کیے جائیں، ہر سال جاری ہونے والی رپورٹ کی بنیاد پر سرکاری پالیسیوں میں اصلاحات لائی جائیں، اسکولوں، میڈیا، پولیس اور عدلیہ میں صنفی حساسیت کی تربیت لازم کی جائے اور ہر رپورٹ شدہ کیس کی فالو اپ رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی جائے۔تقریب کے اختتام پر امر سندھو نے کہا: یہ رپورٹ زخم گننے کے بجائے زخموں کو چیخنے دینے کی کوشش ہے۔ ہم خاموش نہیں رہیں گی، ہم سوال کرتی رہیں گی اور ہم لڑتی رہیں گی، جب تک ہر عورت کی زندگی محفوظ، آزاد اور باعزت نہ ہو جائے۔