غزہ میں بھوک، قحط اور شدید گرمی نے انسانی بحران میں خطرناک حد تک اضافہ ، اقوام متحدہ کی تشویش

جمعہ 15 اگست 2025 14:30

اقوام متحدہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 اگست2025ء) اقوام متحدہ کے انسانی امداد سے متعلق ادارے اوسی ایچ اے نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں بھوک، غذائی قلت اور شدید گرمی کی لہر نے لاکھوں شہریوں کی زندگی کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ ادارے کے مطابق، امدادی مشنوں کو اب بھی شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے، حالانکہ حالیہ دنوں میں اسرائیل کی جانب سے بعض انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مشنوں کی منظوری دی گئی ہے۔

تاہم منظوری کے باوجود یہ مشنز گھنٹوں تاخیر کا شکار ہوتے ہیں اور امدادی کارکنوں کو خطرناک، رش زدہ یا ناقابلِ گزر سڑکوں پر انتظار کرنا پڑتا ہے۔رپورٹ کے مطابق6 سے 12 اگست کے دوران انسانی امداد کے لیے 81 کوششیں کی گئیں، جن میں سے صرف 35 کامیاب ہو سکیں، جبکہ کئی مشنز کو دورانِ عمل روکا گیا، کچھ مسترد کیے گئے اور چند کو منتظمین نے خود واپس لے لیا۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک (ڈبلیو ایف پی ) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں قحط اب اپنی بدترین سطح پر ہے، جہاں اب تک غذائی قلت کے باعث 235 ہلاکتیں ہو چکی ہیں، جن میں 106 بچے بھی شامل ہیں۔ حالیہ مہینے میں تقریباً13ہزار میٹرک ٹن خوراک غزہ بھجوائی گئی، مگر ان میں سے بیشتر امدادی ٹرک منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی لوٹ لیے گئے ۔ غزہ میں پانی، صفائی اور پناہ گاہوں کی قلت بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔

اقوام متحدہ کی ایجنسی یواین آر ڈبلیو اے کے مطابق، علاقے میں پانی کی شدید قلت کے باعث ڈی ہائیڈریشن کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ شدید گرمی کی لہر، جس میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر چکا ہے، صورتحال کو مزید خراب کر رہی ہے۔ پانچ ماہ سے اسرائیل نے پناہ گاہوں کے لیے تعمیراتی مواد کے داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے، جس کے باعث لاکھوں افراد کھلے آسمان تلے یا غیر محفوظ جھونپڑیوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

مزید برآں، غزہ سٹی، خان یونس اور دیر البلح میں فضائی حملے اور گولہ باری میں شدت آئی ہے، جس کے باعث بڑی تعداد میں جانی نقصان ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے غزہ سٹی میں زمینی کارروائی شروع کی، تو پہلے ہی تباہ حال خاندان مزید بدترین حالات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ غزہ کا 86 فیصد علاقہ یا تو عسکری زون قرار دیا جا چکا ہے یا وہاں سے انخلا کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں، جبکہ امدادی ادارے نہ صرف رسائی سے محروم ہیں بلکہ بنیادی اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔