تعمیرات کروانا اراکین اسمبلی کا کام نہیں بلکہ یہ بلدیاتی حکومت کی ذمہ داری ہے،فہیم الزماں صدیقی

منگل 16 ستمبر 2025 17:29

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 ستمبر2025ء)سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم الزماں صدیقی نے کہاہے کہ تعمیرات کروانا اراکین اسمبلی کا کام نہیں بلکہ یہ بلدیاتی حکومت کی ذمہ داری ہے، یہ صرف کرپشن کا ایک ذریعہ ہے جسے ہم ایم این ایز اور اہم پی ایز کے فنڈز کہتے ہیں،جب کوئی سڑک بن رہی ہوتی ہے تو اس کی پوری ذمہ داری محکمے کی ہوتی ہے، سڑکوں پر برساتی پانی کیلیے نالیاں ہونی چاہئیں لیکن اب ایسا نہیں ہوتا ، کیونکہ ارباب اقتدار عوام کی مرضی سے نہیں ہیں۔

خصوصی گفتگوکرتے ہوئے سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم الزماں صدیقی نے بتایا کہ جو بھی محکمہ سڑک بنوا رہا ہے وہ سب سے پہلے ایک اسکیم تیار کرتا ہے جس میں روڈ کی لمبائی، چوڑائی اور اس پر وزن کا تعین کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اس کے بعد سڑک کا ڈیزائن تیار کیا جاتا ہے جس کیلیے محکمہ اپنے انجینئرز یا باہر سے کسی ماہر کی مدد لے سکتا ہے، ڈائزین بننے کے بعد اس کے بی او کیوز بنتے ہیں جس میں تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ اخراجات کیا ہوں گے۔

اس کے بعد اس کا پی سی ون بنتا ہے اور پھر ٹینڈرنگ کا مرحلہ شروع ہوتا ہے، اصول یہ ہے کہ اگر کوئی بھی ٹھیکیدار محکمے کے تخمینے سے کم پر ٹھیکا لیتا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ ڈنڈی مارے گا۔انہوں نے کہاکہ سڑک بنانا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔حقانی چوک جو گاندھی چوک ہوا کرتا تھا اس پر جو سڑک بنی ہوئی تھی اس کے اندر آئرن فائلنگز ڈالی گئی تھیں۔ کراچی میں پہلے سڑکیں نہیں ٹوٹتی تھیں جس کی وجہ بنیادی انجینئرنگ تھی اور کچھ اصول تھے جس میں وزن کا اندازہ لگایا جاتا تھا، اس کے نتائج کیا ہوں گے یہ سب پہلے ڈیزائن کیا جاتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سڑک کا سب سے بڑا دشمن پانی ہے، روڈ اس طرح سے ڈیزائن کی جاتی ہے کہ وہ ہمیشہ بیچ میں سے اٹھائی جاتی ہے اور سائیڈوں سے سلوپ کیا جاتا ہے تاکہ پانی نالیوں میں جائے لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔فہیم الزماں صدیقی نے کہا کہ آج جو وزراء یا بیوروکریٹس ہیں ان کے پاس ایک لاکھ روپے بھی نہیں ہوتے تھے لیکن آج ارب پتی بن چکے ہیں، یہ اربوں روپے سڑک، پل اور پائپ لائن وغیرہ کی تعمیر سے بنائے گئے ہیں۔

انہوں نے کراچی میں سڑکیں ٹوٹنے کی ایک احتساب کی کمی کو بھی قرار دیا۔انہوں نے کہاکہ2017اور 2018 میں یونیورسٹی روڈ 1 ارب روپے کی لاگت سے بنی تھی جو بارش میں 24 جگہوں سے ٹوٹ گئی۔ میں نے تصاویر ارباب اقتدار کو بھیج کر انکوائری کا مطالبہ کیا لیکن کسی نے پلٹ کر جواب نہیں دیا اس کی وجہ یہ ہے کہ پورا سسٹم کرپشن کا شکار ہے۔