ترقیاتی بجٹ قومی ترقی کی ریڑھ کی ہڈی ہے، آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے باعث ہر روپے کا استعمال صرف اعلیٰ ترجیحی منصوبوں پر ہونا چاہئے، احسن اقبال

منگل 16 ستمبر 2025 21:37

ترقیاتی بجٹ قومی ترقی کی ریڑھ کی ہڈی ہے، آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 ستمبر2025ء) وفاقی وزیرمنصوبہ بندی،ترقی وخصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے کہاہے کہ ترقیاتی بجٹ قومی ترقی کی ریڑھ کی ہڈی ہے، آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے باعث اس سال ترقیاتی بجٹ محدود کر دیا گیا ہے اس لئے ہر روپے کا استعمال صرف اعلیٰ ترجیحی منصوبوں پر ہونا چاہئے،منصوبوں پرنظرثانی میں تاخیرسے لاگت میں اضافہ ہوجاتاہے، گزشتہ برس 36 منصوبوں کی نظرثانی سے ان کی لاگت دگنی ہوگئی جبکہ اس سال بھی 26 منصوبے نظرثانی کے بعد مالی دباؤ کا شکار ہیں۔

انہوں نے یہ بات منگل کویہاں سرکاری شعبہ کے سالانہ ترقیاتی پروگرام(پی ایس ڈی پی) 2024-25کی سالانہ کارکردگی اور پی ایس ڈی پی کے تحت مالی سال 2025-26 کی پہلی سہ ماہی میں جاری کردہ فنڈز و اخراجات کا جائزہ لینے کے لئے اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں وزارتوں، ڈویژنز اور صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں پر پیشرفت کے ساتھ ساتھ جاری مالی سال میں محدود ترقیاتی فنڈز کو مؤثر اور بہتر انداز میں استعمال کرنے کی حکمت عملیوں پر غور کیا گیا۔

اجلاس میں پلاننگ کمیشن کی سینئرانتظامیہ، وفاقی سیکرٹریز اور وفاقی وزارتوں، ڈویژنز اور صوبائی محکموں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے ترقیاتی فنڈز کے حوالہ سے گنجائش میں کمی پر تشویش کا اظہار کیا اورکہاکہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار گزشتہ برس پی ایس ڈی پی کیلئے فنڈز کی منظوری کاحجم ایک کھرب روپے سے تجاوز کر گیا تھا جو ایک ریکارڈ تھا لیکن بدقسمتی سے اس سال ہم الٹی سمت میں جا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2018 میں پی ایس ڈی پی کیلئے مختص فنڈز جی ڈی پی کے 2.6 فیصد سے کم ہوکر 2025 میں محض 0.8 فیصد رہ گئے جس سے معیشت اور روزگار کے مواقع پر شدید دباؤ آیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ترقیاتی بجٹ قومی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے باعث اس سال ترقیاتی بجٹ محدود کر دیا گیا ہے اس لئے ہر روپے کا استعمال صرف اعلیٰ ترجیح کے حامل منصوبوں پر ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہاکہ وزارتِ منصوبہ بندی کی درخواست اور وزیر اعظم کی ہدایت پر ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے چار دن تک جاری منصوبوں کا تفصیلی جائزہ لیا۔ کمیٹی نے جاری مالی سال کیلئے پی ایس ڈی پی کاحجم 1267 ارب روپے کرنے کی سفارش کی تاہم وزارت خزانہ نے صرف 1000 ارب روپے مختص کئے۔ انہوں نے زور دیا کہ ہر وزارت اپنے منصوبوں کا دوبارہ جائزہ لے کر صرف ضروری اور قومی اہمیت کے حامل منصوبے سامنے لائے۔

انہوں نے بتایا کہ منصوبوں پرنظرثانی میں تاخیرسے اکثر لاگت میں اضافہ ہوجاتاہے، گزشتہ برس 36 منصوبوں کی نظرثانی سے ان کی لاگت دگنی ہوگئی جبکہ اس سال بھی 26 منصوبے نظرثانی کے بعد شدید مالی دباؤ کا شکار ہیں۔ صرف لاگت میں اضافے کے اثرات ایک کھرب دس ارب روپے سے زائد ہے۔اجلاس کوبتایاگیاکہ مالی سال 2024-25کی پی ایس ڈی پی کا آغاز 10,216 ارب روپے کے کیری فاروڈ کے ساتھ ہوا۔

سپانسرنگ ایجنسیوں نے جاری اور نئے منصوبوں کے لئے 2904 ارب روپے کا مطالبہ کیا تاہم اصل مختص بجٹ 1400 ارب روپے سے کم کرکے 1100 ارب روپے کردیا گیا۔ مختص بجٹ کے مقابلے میں 1077 ارب روپے استعمال ہوئے۔اجلاس میں بتایا گیا کہ وسط مدتی جائزے کے بعد 221 منصوبے جون 2025 تک مکمل کرنے اور 123 منصوبے ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے نتیجے میں مجموعی بقیہ واجبات میں 2 ٹریلین روپے کی کمی لائی گئی تاکہ تیز رفتار اور قومی اہمیت کے حامل منصوبوں پر توجہ دی جاسکے۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ جاری مالی سال کے دوران پی ایس ڈی پی کی تیاری میں ایکنک اورسینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کی منظور شدہ منصوبوں کو ترجیح دی گئی ہے اور صوبائی سطح پر پسماندہ اضلاع میں واقع منصوبوں کے علاوہ نئے منصوبے شامل نہیں کئے گئے ،کل مختص فنڈز کا 62 فیصد ایکنک اورسینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کے منصوبوں پر خرچ ہوگا۔ مزید برآں وسائل کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے منصوبے شروع کرنے کے لئے این او سی لازمی ہوگا۔

وفاقی وزیرنے کہاکہ قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے اور مالی گنجائش سکڑتی جا رہی ہے،اس تناظرمیں ہمیں ذمہ دارانہ انداز میں ترقیاتی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ انہوں نے اس امیدکااظہارکیاکہ آئندہ مالی سال میں زیادہ جامع اور مستقبل بین پی ایس ڈی پی پیش کرنے کا موقع ملے گا۔