}پبلک اکانٹس کمیٹی کا توانائی محکمے پر سخت کڑا احتساب کا انتباہ

جمعہ 19 ستمبر 2025 22:40

Sکوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 ستمبر2025ء) پبلک اکانٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین اصغر علی ترین کی زیر صدارت آج منعقد ہوا، جس میں توانائی محکمے کے بجٹ، اخراجات اور بے قاعدگیوں پر سخت سوالات اٹھائے گئے۔ اجلاس میں کمیٹی اراکین فضل قادر مندوخیل، ولی محمد نورزئی، رحمت صا لح بلوچ اور صفیہ بی بی نے شرکت کی جبکہ خصوصی دعوت پر اپوزیشن لیڈر یونس عزیز زہری،سیکرٹری اسمبلی طاہر شاہ کاکڑ،ڈی جی آڈٹ شجاع علی، ڈپٹی اکانٹنٹ جنرل حافظ نور الحق، ایڈیشنل سیکرٹری پی اے سی سراج لہڑی بھی شریک ہوئے۔

اجلاس میں انکشاف ہوا کہ مالی سال 22-2021 کے دوران توانائی محکمہ کو 10 ارب 40 کروڑ روپے کے فنڈز ملے مگر 8 ارب روپے خرچ ہوئے، جبکہ 2 ارب 31 کروڑ روپے کی خطیر رقم لیپس ہوکر واپس چلے گئے۔

(جاری ہے)

اراکین نے کہا کہ اتنی بڑی رقم کو استعمال میں نہ لانا محکمہ کی غیر ذمہ دارانہ بجٹ سازی اور فنڈز کے غیر مثر استعمال کو ظاہر کرتی ہے۔ ولی محمد نورزئی نے کہا یہ بہانہ قابل قبول نہیں کہ محکمہ میں آسامیاں پر نہیں کی گئی جسکی وجہ سے یہ بچت ہوئی، 30 فیصد فنڈز کا ضائع ہونا بہت بڑا جرم ہے۔

فضل قادر مندوخیل نے واضح اعلان کیا کہ ذمہ داروں کو ہر حال میں سزا ملے گی۔کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ چیف سیکرٹری کو خط لکھا جائے گا کہ آئندہ کوئی سیکرٹری 5 فیصد بجٹ سے زائد یا بچت Excess/Saving بروقت محکمہ خزانہ کو واپس نہیں کرکے لیپس کریگا تو اسے سخت سزا دی جائے۔سبسڈائزڈ ٹیوب ویلز میں 40 ارب روپے کی بے قاعدگیاں اجلاس میں انکشاف ہوا کہ توانائی محکمہ نے کیالیکٹرک کو 10 ارب روپے اور کیسکو کو 30 ارب روپے ادائیگی کی مگر یہ ادائیگی بغیر میٹر ریڈنگ کے، صرف اندازوں پر کی گئی۔

کمیٹی نے اسے کھلی بے ضابطگی قرار دیا۔ چیئر مین اور ممبرز نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ پر پی اے سی نے 2021 میں بھی حکم جاری کیا تھا اور انکوائری کا حکم دیا تھا جبکہ رپورٹ میں محکمہ انرجی نے انکوائری میں فیل ہونے کا اعتراف کر رہا ہے ، اور رپورٹ میں پی اے سی کی جانب سے تمام پوائنٹس شامل نہیں ہیں صرف دو پوائنٹ انکوائری میں شامل ہے اور رپورٹ نا مکمل ہے ۔

محکمہ نے آج تک اس بارے میں کوئی پیش رفت نہیں کی۔اگر محکمہ کا یہی رویہ رہا تو یہ معاملہ نیب کے حوالہ کرینگے۔رحمت صالح بلوچ نے کہا جب کوئی جواب دہ نہیں ہوتا تو محکموں کا یہی حال ہوتا ہے، یہ کھلی لوٹ مار ہے۔چیئرمین اصغر علی ترین نے کہا میٹر ریڈنگ کئیے بغیر بل بنانا اور بغیر حساب کتاب کے اربوں روپے بل دینا جرم ہے۔ اب تک سبسڈی کی مد میں اربوں روپے ادا ہوئے ہیں ۔

کیسکو کا دعوی 500 ارب روپے کے نادہندہ زمیندار اور 54 ارب کے نادہندہ سرکاری ادارے ۔ لیکن ممبرز کا کہنا کہ کوئٹہ کے علاوہ دیگر شہروں بجلی صرف تین یا چار گھٹے میسر اجلاس میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ صوبے کے زمیندار کیسکو کے 500 ارب روپے کے نادہندہ ہیں جبکہ سرکاری ادارے 54 ارب روپے کے نادہندہ ہیں۔ اراکین نے کہا کہ محکمہ توانائی ان ریکوری پر سنجیدہ نہیں اور کیسکو جو بل بھیجتا ہے، محکمہ اندھا دھند ادائیگی کر دیتا ہے آج تک محکمے نے Reconcile نہیں کیا جبکہ یہ رقم جرمانے کے اوپر جرمانہ ہیں ۔

ممبرز حیرانگی کا اظہار کیے کہ صرف دو تین گھنٹوں کا بل واقعی میں اتنے ہی رقم بنتے ہیں۔جو محکمہ کی نا اہلی ہے۔کیسکو کی جانب سے بجلی ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کی صوبہ کو عدم ادئیگی*؂اجلاس میں انکشاف ہوا کہ کیسکو نے 9 ارب 89 کروڑ روپے بجلی ڈیوٹی وصول کی مگر حکومت بلوچستان کو اس کا حصہ ادا نہیں کیے۔ اسی طرح بی ایس ٹی ایس (سیلز ٹیکس بر خدمات) کی مد میں 62 کروڑ روپے کی کٹوتی بھی نہیں کی گئی جس سے صوبائی خزانے کو بھاری نقصان ہوا۔

کمیٹی نے سخت الفاظ میں حکم دیا کہ ان تمام رقوم کی ایک ماہ کے اندر ریکوری کی جائے، بصورت دیگر ذمہ دار افسران کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔اراکین کا شدید ردعمل اجلاس میں اراکین نے کہا کہ توانائی محکمہ بغیر تیاری کے اس بڑے فورم پر آتا ہے جو ناقابل برداشت ہے۔ کمیٹی نے واضح کیا کہ آئندہ غیر سنجیدگی اور بے ضابطگی برداشت نہیں ہوگی۔یہ اجلاس توانائی محکمہ کے اندر چھپے کرپشن اور بدانتظامی کے پہاڑ کو بے نقاب کر گیا۔ کمیٹی کے فیصلے اگر عملی جامہ پہن لیں تو بلوچستان کے خزانے کو اربوں روپے کے نقصان سے بچایا جا سکتا ہی