9 مئی واقعات کے الزام میں دوران قید جاں بحق ہو جانے والے پی ٹی آئی کارکن کی میت بھی ہتھکڑی لگا کر اہل خانہ کے حوالے کی گئی

مرحوم قاسم کھوکھر کی 3 دن پہلے جیل میں وفات ہوئی، ورثاء نے بتایا کہ لاش ہتھکڑیوں میں حوالے کی گئی، سلمان اکرم راجہ کا انکشاف

muhammad ali محمد علی پیر 22 ستمبر 2025 21:07

9 مئی واقعات کے الزام میں دوران قید جاں بحق ہو جانے والے پی ٹی آئی کارکن ..
گوجرانوالہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 22 ستمبر2025ء) پی ٹی آئی کارکن کی میت ہتھکڑیاں لگا کر اہل خانہ کے حوالے کیے جانے کا انکشاف۔ تفصیلات کے مطابق گوجرانوالہ جیل میں دوران قید انتقال کر جانے والے تحریک انصاف کے نوجوان کارکن کے حوالے سے افسوسناک انکشاف سامنے آیا ہے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے پیر کے روز پی ٹی آئی کے وفات پا جانے والے کارکن قاسم کھوکھر کے اہل خانہ کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ 9 مئی واقعات کے الزام میں دوران قید جاں بحق ہو جانے والے پی ٹی آئی کارکن کی میت بھی ہتھکڑی لگا کر اہل خانہ کے حوالے کی گئی، مرحوم قاسم کھوکھر کی 3 دن پہلے جیل میں وفات ہوئی، ورثاء نے بتایا کہ لاش ہتھکڑیوں میں حوالے کی گئی۔

واضح رہے کہ ہفتے کے روز گوجرانوالہ کی سینٹرل جیل میں قیدی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگیا تھا۔

(جاری ہے)

بعد ازاں انکشاف ہوا کہ جیل میں دوران قید جو قیدی انتقال کر گیا، وہ تحریک انصاف کا نوجوان کارکن تھا جسے 9 مئی واقعات کے الزام میں جیل کی سزا سنائی گئی۔ جیل حکام کے مطابق قیدی قاسم کھوکھر 9 مئی کے مقدمے میں سینٹرل جیل میں قید تھا۔ جیل حکام کا بتانا ہے کہ اے ٹی سی نے قاسم کو 5 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

دوسری جانب سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کی اجازت کا تحریری فیصلہ بھی جاری کر دیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری انٹرا کورٹ اپیلوں کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آئینی بینچ نے 7 مئی کو انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کی تھیں۔ سپریم کورٹ نے ملٹری ٹرائل کا پانچ ججز کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔ جسٹس امین الدین خان نے 68 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا جس میں جسٹس محمد علی مظہر نے 47 صفحات کا اضافی نوٹ لکھا جس سے جسٹس امین، جسٹس حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شاہد بلال نے اتفاق کیا ہے۔

اس کے علاوہ جسٹس جمال مندوخیل جسٹس نعیم افغان نے اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے انٹرا کورٹ اپیل میں ملٹری ٹرائل کی اجازت دیدی تھی۔ تحریری فیصلے میں عدالت نے ملٹری کورٹ کے سزا یافتہ ملزمان کو اپیل کا حق دینے کا حکم دیا جبکہ حکومت سے 45 دن میں اپیل کے حق سے متعلق قانون سازی کا حکم بھی دیا۔ تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ مناسب آئینی ردعمل کا مقصد آرمی ایکٹ کی دفعات کو یکسر کالعدم کرنا نہیں، آرمی ایکٹ میں بنیادی ضابطہ موجود ہے مگر عام شہریوں کیلئے اپیل کے مناسب فورم کا فقدان ہے، فوجی عدالتوں سے سزایافتہ شہریوں کیلئے ہائیکورٹس میں آزادانہ اپیل کیلئے قانون سازی کو پورا کیا جانا چاہیے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ کیس کے دوران اٹارنی جنرل نے کئی بار حق اپیل پر حکومتی ہدایات کیلئے وقت لیا، پانچ مئی کو آخری سماعت پر بھی اٹارنی جنرل نے ایسا ہی کہا، اٹارنی جنرل نے کہا عدالت ہدایت دے تو پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو سکتی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا عدالتی حکم کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ آزاد حق اپیل کی عدم موجودگی میں آرمی ایکٹ میں موجود ضابطہ کار عام شہریوں کیلئے آئینی طور پر مکمل نہیں، حق اپیل کی کمی کو پورا کرنے کیلئے قانون سازی کی مداخلت کی ضرورت ہے، آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائلز آئینی طور پر بنیادی حقوق کے نظام سے باہر رکھے گئے ہیں، ملٹری ٹرائل میں بھی آرٹیکل 10 اے میں وضع معیار کی پاس داری ہونی چاہیے، فوجی عدالتوں میں ٹرائل اختیارات کی تقسیم کے اصول سے متصادم نہیں، آرٹیکل 175(3) فوجی عدالتوں کے وجودکی نفی نہیں کرتا، پانچ رکنی بنچ نے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں غلطی کی تھی۔