اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا آغاز، عالمی رہنماؤں کا کثیرالطرفہ تعاون اور اصلاحات پر زور

بدھ 24 ستمبر 2025 09:10

اقوام متحدہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 ستمبر2025ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے پہلے روز، 30 سے زائد ممالک کے سربراہان نے عالمی اسٹیج پر خطاب کرتے ہوئے فلسطینی ریاست، موسمیاتی تبدیلی سمیت کثیرالطرفہ نظام اور سلامتی کونسل کی اصلاحات جیسے اہم مسائل پر توجہ مرکوز کی۔شنہوا کے مطابق برازیل کے صدر لولا ڈی سلوا نے اجلاس کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کاکثیرالطرفہ نظام ایک نئے موڑ پر کھڑا ہےاور اقوام متحدہ کی اتھارٹی کو چیلنجز کا سامنا ہے۔

انہوں نے عالمی سیاست میں خودمختاری پر حملوں، یکطرفہ پابندیوں اور مداخلتوں پر تنقید کرتے ہوئے انہیں ایک معمول بنتی ہوئی روش قرار دیا۔ فلسطینی عوام کی حالتِ زار پر بات کرتے ہوئے انہوں نے خبردار کیا کہ فلسطینی قوم کے وجود کو خطرہ لاحق ہےاور اس کا حل صرف ایک آزاد ریاست کے قیام میں ہے جو عالمی برادری کا حصہ ہو۔

(جاری ہے)

پیرو کی صدر دینا بولوارٹے نے بھی کثیرالطرفہ نظام کی حمایت کی اور اقوام متحدہ میں مؤثر اصلاحات کا مطالبہ کیا تاکہ جمہوریت، قانون کی حکمرانی، موسمیاتی تبدیلی اور سماجی و اقتصادی مسائل کا بہتر حل تلاش کیا جا سکے۔

قازقستان کے صدر قاسم جومارت توقایف نے عالمی برادری پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کو مؤثر بنانے کے لیے اس کے نظام، خصوصاً سلامتی کونسل کی جامع اصلاحات کی جائیں تاکہ بڑھتے ہوئے عالمی عدم اعتماد کا ازالہ ہو سکے۔انڈونیشیا کے صدر پربوو سبیانتو نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے سنگین اثرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ انڈونیشیا ، جو دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ نما ملک ہے ، پہلے ہی سمندر کی سطح میں اضافے جیسے خطرات سے دوچار ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ انڈونیشیا فوسل ایندھن سے ہٹ کر قابلِ تجدید توانائی کی طرف بڑھ رہا ہے اور 2060 تک خالص صفر اخراج کا ہدف حاصل کرنا چاہتا ہے۔اس کے برعکس، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ماحولیاتی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کاربن کے اثرات کو ایک دھوکہ قرار دیا، جب کہ چلی کے صدر گیبریل بوریچ نے ان کی بات کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالمی حدت کا انکار کوئی رائے نہیں بلکہ جھوٹ ہے۔

تاجکستان کے صدر امام علی رحمان نے اپنے ملک میں ماحولیاتی چیلنجز پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے 14ہزارگلیشیئرز میں سے 1300مکمل طور پر پگھل چکے ہیں اور یہ عمل تیزی سے جاری ہے۔دوسری جانب جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے پائیدار ترقی اور عالمی امن کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ افریقہ ایک ابھرتا ہوا براعظم ہے، لیکن ترقی پذیر ممالک کو مالی وسائل کی کمی کا سامنا ہے، یہاں تک کہ وہ صحت اور تعلیم سے زیادہ قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا یہ عالمی مکالمہ 29 ستمبر تک جاری رہے گا، جس میں دنیا بھر سے 150 سے زائد سربراہان مملکت و حکومت اہم عالمی مسائل پر اپنے خیالات پیش کریں گے۔