جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ذہنی صحت مرکز بحث

یو این جمعہ 26 ستمبر 2025 05:15

جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ذہنی صحت مرکز بحث

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 26 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی ہفتے میں پہلی مرتبہ دماغی صحت کی نگہداشت پر ایک اجلاس ہونے جا رہا ہے۔ 25 ستمبر کو عالمی رہنما اصولوں کا ایسا مجموعہ طے کرنے کے لیے بات چیت کریں گے جس سے ذہنی مسائل کا شکار افراد کی مدد کے لیے بین الاقوامی اقدامات کو فروغ ملے گا۔

اگرچہ گزشتہ برسوں میں ذہنی صحت کا موضوع بارہا اقوام متحدہ میں زیربحث آیا ہے لیکن اس ضمن میں یہ اجلاس خاص اہمیت رکھتا ہے۔

اس موقع پر امراض قلب، سرطان، ذیابیطس اور دائمی تنفسی مسائل سمیت غیر متعدی بیماریوں کی روک تھام اور ان پر قابو پانے کے لیے بات چیت بھی کی جائے گی۔

غیر متعدی بیماریاں دنیا بھر میں موت اور جسمانی معذوری کا بڑا سبب ہیں۔

(جاری ہے)

ایسی کئی بیماریوں کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے اور بہت سے افراد کو یہ بیک وقت لاحق ہوتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں دیکھ بھال کے مربوط طریقہ کار کی ضرورت پڑتی ہے۔

غیرمعمولی طبی مسئلہ

عالمی ادار صحت (ڈبلیو ایچ او) میں غیر متعدی بیماریوں اور ذہنی صحت سے متعلق شعبے کی قائم مقام ڈائریکٹر ڈاکٹر دیوورا کیسل نے کہا ہے کہ ادارہ اب پہلی مرتبہ وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ دنیا میں ایک ارب سے زیادہ لوگ ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہیں۔

انہوں نے بتایا ہے کہ ڈپریشن سب سے عام ذہنی بیماری ہے جس میں مبتلا صرف نو فیصد افراد کو ہی طبی مدد ملتی ہے جبکہ نفسیاتی عوارض میں مبتلا تمام لوگوں میں سے صرف 40 فیصد افراد کو ہی علاج میسر آتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ رکن ممالک کو مزید اور بہتر طریقے اپنانا ہوں گے تاکہ وہ ایسی خدمات تیار کر سکیں جو نہ صرف دستیاب ہوں بلکہ آسانی سے حاصل بھی کی جا سکیں۔ فی الوقت جہاں یہ سہولیات موجود ہیں وہاں بھی اکثر لوگ ان تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے چاہے اس کی وجہ اخراجات ہوں، فاصلہ یا دیگر طبی سہولیات سے انضمام کی کمی اس کا سبب ہو۔

© UNICEF/Michael Duff

سماجی بدنامی بھی ذہنی مسائل سے متاثرہ افراد کو مدد لینے سے روکنے کا سبب ہوتی ہے۔

اس اجلاس میں منظور کیے جانے والی سیاسی اعلامیہ کا مقصد علم کے تبادلے کو فروغ دینا اور مالی وسائل میں اضافہ کرنا ہے۔

ڈاکٹر کیسل کے مطابق، رکن ممالک نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ بعض ایسے مسائل کے حل پر زور دیں گے جو تمام غیر متعدی بیماریوں میں مشترک ہیں لیکن کچھ ایسے پہلو بھی اجاگر کیے جائیں گے جو ذہنی صحت سے مخصوص ہیں جن میں بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی صحت، خودکشی کی روک تھام، اور مقامی سطح پر ذہنی صحت کی خدمات کے فروغ کی کوششیں شامل ہیں۔

ذہنی و جسمانی امراض میں تعلق

تمباکو نوشی، شراب کا مضر استعمال، جسمانی سرگرمی کی کمی، غیر صحت مند خوراک اور فضائی آلودگی غیر متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ ہیں ۔ تشخیص، علاج اور دیکھ بھال کی سہولیات تک محدود رسائی بھی ان کا ایک بڑا سبب سمجھی جاتی ہے۔

ڈاکٹر دیوورا کیسل کے مطابق، ذہنی اور جسمانی بیماریوں کے خطرات میں نمایاں حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔

ایسے طرزِ زندگی کو فروغ دینا دونوں طرح کی بیماریوں سے نمٹنے کے لیےموثر ہے جس میں جسمانی سرگرمی، متوازن خوراک اور تمباکو و شراب نوشی سے پرہیز شامل ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ اب اس معاملے میں سیاستدانوں کے اپنا کردار ادا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ گزشتہ چند سال میں ذہنی صحت کی اہمیت کے بارے میں بہت کچھ کہا اور سنا گیا ہے اور اب اس حوالے سے عملی عزم کی ضرورت ہے۔

دنیا کو ایسے رہنما درکار ہیں جو اس بات کو سمجھتے ہوں کہ ایسے مسائل، طریقہ کار اور نظام موجود ہیں جنہیں نافذ کر کے ذہنی صحت کی سہولیات تک رسائی ممکن بنائی جا سکتی ہے چاہے وہ صحت مند طرزِ زندگی کا فروغ ہو یا انفرادی طور پر علاج اور دیکھ بھال کی فراہمی ہو۔ اس میں ان افراد کا کردار بھی شامل ہونا چاہیے جو خود ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار رہے ہوں۔

25 ستمبر کو ہونے والا اجلاس ذہنی صحت کے مسائل اور غیر متعدی بیماریوں کو عالمی ایجنڈے پر واضح طور پر شامل کرنے کا موقع ہو گا۔

UNICEF/Fauzan Ijazah

عالمگیر صحت عامہ کا تحفظ

اجلاس کے اعلامیہ میں درج ذیل اقدامات کو ترجیح بنایا جائے گا:

  • بنیادی صحت کی دیکھ بھال: ہر فرد کے لیے ذہنی صحت کے مسائل کی روک تھام، تشخیص اور علاج کی بنیادی سہولیات تک رسائی کو یقینی بنانا۔

  • ضروری ادویات اور طبی ٹیکنالوجی:اس بات کی ضمانت دینا کہ یہ محفوظ، مؤثر اور اعلیٰ معیار کی حامل ہوں۔
  • پائیدار مالی وسائل کی فراہمی: بالخصوص کم اور متوسط آمدنی والے ممالک کے لیے مالی مدد کو یقینی بنانا۔
  • غیرمتعدی بیماریوں اور ذہنی صحت کے مشترکہ خطرات اور ان کے علاج کی ضرورت کا اعتراف:ان بیماریوں سے متاثرہ افراد کی آرا کو سننا اور پالیسی سازی میں ان کے تجربات کو شامل کرنا۔

  • بین الاداری تعاون: صحت صرف دوا پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ اس میں غذائیت، ماحول، قانون سازی اور معیشت بھی شامل ہیں۔
  • صحت کے لیے نقصان دہ خارجی عوامل سے نمٹنا: ان میں فضائی آلودگی، غیر صحت مند خوراک کی تشہیر، تمباکو نوشی کا فروغ اور مضر سماجی و اقتصادی حالات شامل ہیں۔
  • عالمی سطح پر شعور کی بیداری: ذہنی صحت اور غیر متعدی بیماریوں کے بارے میں عالمی سطح پر آگاہی پیدا کرنا۔
  • یہ نکات عالمگیر صحت عامہ میں بہتری لانے اور ایک جامع، منصفانہ نظام صحت قائم کرنے کی سمت میں اہم قدم ہوں گے۔