سعودی وزیر خارجہ کا اقوام متحدہ میں خطاب، فلسطین کی حمایت کا اعادہ

پیر 29 ستمبر 2025 08:40

اقوام متحدہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 29 ستمبر2025ء) سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80 ویں اجلاس میں سعودی عرب کی نمائندگی کرتے ہوئے خطاب کیا ہے۔سعودی پریس ایجنسی کے مطابق سعودی وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ’سعودی عرب کو فخر ہے کہ وہ اقوام متحدہ کا بانی رکن ہے اور وہ ميثاقِ اقوام متحدہ کے اُصولوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے تاکہ بین الاقوامی قانون کے احترام کو مستحکم کیا جا سکے اور عالمی امن و سلامتی کو فروغ دیا جا سکے۔

انہوں نے زور دے کر کہا ہے کہ سعودی عرب انسانی پکار پر لبیک کہنے اور مدد اور تعاون کا ہاتھ بڑھانے میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔ سعودی عرب اب تک 141 ارب امریکی ڈالر سے زائد کی امداد فراہم کرچکا ہے جس سے 174 ممالک نے استفادہ کیا ہے۔

(جاری ہے)

شہزادہ فیصل بن فرحان نے سعودی عرب کے فلسطینی مسئلے پر مستقل اور واضح موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب وقت آچکا ہے کہ اس مسئلے کا منصفانہ اور دیرپا حل تلاش کیا جائے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی قوانین اور شرعی جواز سے ہٹ کر اس مسئلے کو برتنا ہی تشدد کے تسلسل اور مصائب کے بڑھنے کا باعث بنا ہے۔سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’بین الاقوامی برادری کی اسرائیلی جارحیت اور خلاف ورزیوں کو روکنے میں ناکامی نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر امن و استحکام کو متزلزل کرے گی اور سنگین نتائج کی راہ ہموار کرے گی جن میں جنگی جرائم اور نسل کشی میں اضافہ بھی شامل ہے۔

انہوں نے فلسطینی مسئلے کے حل کے لیے سعودی عرب کی مسلسل کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ سعودی عرب نے ناروے اور یورپی یونین کے ساتھ مل کر ’بین الاقوامی اتحاد برائے دو ریاستی حل‘ کے آغاز میں پیش قدمی کی اور فرانس کے ساتھ مل کر فلسطینی مسئلے کے پُرامن حل اور دو ریاستی حل پر بین الاقوامی کانفرنس کی صدارت کی۔شہزادہ فیصل بن فرحان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک واضح راستہ ہے جو قبضے اور تنازع کے خاتمے کی طرف لے کر جاتا ہے۔

انہوں نے اُن ممالک کی تعریف کی جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا اور فلسطینی اتھارٹی کی اہم اصلاحات کی کوششوں کو سراہا جو عالمی برادری سے مزید تعاون اور مدد کی مستحق ہیں۔اپنے خطاب میں وزیر خارجہ نے ایٹمی پھیلاؤ اور خطے میں اسلحے کی دوڑ روکنے کے نظام کی پابندی پر زور دیا اور بحیرہ احمر، خلیجِ عدن اور آبی گزرگاہوں میں سلامتی، جہاز رانی اور آزادی کے تحفظ کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔