ظ* بلوچستان کے مسائل کا حل جمہوری انداز میں ہی ممکن ہے، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

جمعرات 2 اکتوبر 2025 20:30

ص*تربت (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 02 اکتوبر2025ء) کیچ کلچرل فیسٹیول کے دوسرے روز مختلف علمی، سماجی، صحافتی اور ثقافتی موضوعات پر بھرپور سیشنز منعقد کیے گئے جن میں ممتاز ماہرین تعلیم، سیاست، صحافت اور ادب نے شرکت کی۔پہلے سیشن میں معروف دانشور اور ماہر تعلیم ڈاکٹر پرویز ہودبائی، سابق وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار اور صدر پریس کلب کوئٹہ عرفان سعید نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

اس موقع پر ڈاکٹر پرویز ہودبائی نے کہا کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جانی چاہیے تاکہ وہ اپنی زبان پر عبور حاصل کرسکیں، تاہم جدید علوم کے حصول کے لیے انگریزی سیکھنا بھی ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سائنس کا مذہب دو مختلف موضوعات ہیں اور ان دونوں کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا ۔

(جاری ہے)

مذہب انسان کو طرز زندگی اور اخلاقیات سکھاتا ہے جبکہ سائنس مشاہدے، تجربے اور منطق پر مبنی ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ تعلیم کا مقصد صرف رٹہ لگانا نہیں بلکہ سوال کرنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہوتا ہے۔اس موقع پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ بلوچستان کے مسائل کا حل جمہوری انداز میں ہی ممکن ہے۔ ان کے مطابق تمام اقوام کی زبانوں اور ثقافتوں کو احترام دینے سے ہی ریاست مستحکم ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں شرح خواندگی شرح بہت کم ہے، غربت و جہالت عام ہے اور ان مسائل کے حل کے لیے تعلیم پر فوکس کرنا چاہیے انہوں نے کہا کہ عوام کو حقیقی جمہوری حقوق دینا آج کے وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔

اس موقع پر سینیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ بلوچستان میں صحافت دبا اور مشکلات کا شکار ہے، مین اسٹریم میڈیا صوبے کے مسائل کو صحیح طریقے سے اجاگر کرنیمیں ناکام ہے ، تاہم سوشل میڈیا ایک مثر پلیٹ فارم کے طور پر سامنے آیا ہے جو عوامی آواز کو تقویت دے رہا ہے۔ اس موقع پر کوئٹہ پریس کلب کے صدر عرفان سعید نے کہا کہ بلوچستان کی صحافت اپنی شناخت کھو رہی ہے اور اس حوالے سے مکران کے صحافیوں کو ایک مثر کردار ادا کرنا چاہیے اور قومی و صوبائی سطح پر روابط قائم کرکے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہوگا۔

دوسرے سیشن میں نامور ماہرِ آثار قدیمہ ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری نے بلوچستان کی قدیم تہذیبوں پر لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ یہ خطہ ایشیا اور مشرق وسطی کی تہذیبوں کے سنگم پر واقع ہے۔ ان کے مطابق مہرگڑھ کی تہذیب وادیِ سندھ کی ہڑپہ و موئن جو دڑو تہذیب سے بھی قدیم ہے اور اس کے روابط میسوپوٹیمیا سے بھی جڑے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ آثار قدیمہ کی حفاظت کے لیے مثر پالیسی بنانا ضروری ہے تاکہ ہمارا ثقافتی ورثہ محفوظ رہے اور نوجوان اس شعبے میں زیادہ سے زیادہ تحقیق کرسکیں۔

تیسرے سیشن میں یونیورسٹی آف تربت کے طلبہ و طالبات نے کاروباری منصوبہ بندی کے حوالے سے بزنس پروپوزلز پیش کیے۔ اس پروگرام کی میزبانی پروفیسر سمینہ فقیر نے کی، جبکہ ججز کے طور پر ڈاکٹر غلام جان اور سابق صدر بلوچستان چیمبر آف کامرس حاجی فدا حسین دشتی موجود تھیفیسٹیول کے دوران بلوچی زبان کے پروفیسر ڈاکٹر غفور شاد نے بلوچی زبان کے ادیب اور شاعر فقیر شاد کی کتاب "میراث" پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ تصنیف بلوچی ادب میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے بلوچی کا شاہنامہ فردوسی کہا جاسکتا ہے۔

اسی موقع پر تقریب کے دوران شیخہ فاطمہ بنت مبارک کیڈٹ کالج تربت کی طالبہ زارا التاز سخی کی انگریزی شاعری کے مجموعے Echo کی رونمائی بھی ہوئی، جسے شاعرہ نے ملالہ یوسفزئی کے نام وقف کیا۔ثقافتی پروگرام میں معروف فنکار حفیظ لعل ،شوکت مراد اور دیگر نے تھیٹر پرفارمنس پیش کی جبکہ ڈرامہ نگار صلاح الدین بیوس نے بلوچی روایات اور لوک کہانیوں پر مشتمل مزاحیہ شو سے حاضرین کو خوب محظوظ کیا۔ اس موقع پر ضلع کیچ کے آثار قدیمہ کے منظرنامہ پر مبنی ایک ڈاکومنٹری بھی دکھائی گئی۔تقریب کے دوسرے دن کے کمپیرنگ کے فرائض قدیر لقمان، مقبول ناصر اور التاز سخی اور دیگر نے انجام دیئی