آئین کے پابند ہیں‘ ہمارے بس میں نہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم سے پیچھے چلے جائیں، جسٹس امین الدین

جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا، عدالت کو بتا دیں کیوں 16 رکنی بینچ بنا دیں؟ اور ہم کس اختیار سے فل کورٹ تشکیل دیں؟ دوران سماعت وکیل حامد خان سے استفسار

Sajid Ali ساجد علی بدھ 8 اکتوبر 2025 13:00

آئین کے پابند ہیں‘ ہمارے بس میں نہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم سے پیچھے چلے ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 08 اکتوبر2025ء ) سپریم کورٹ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین امین الدین کا کہنا ہے کہ آئین کے پابند ہیں، ہمارے بس میں نہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم سے پیچھے چلے جائیں، جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہو گا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر باقاعدہ سماعت کا آغاز آج سے ہوچکا ہے، جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ یہ کیس سن رہا ہے، بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔

دوران سماعت جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ ’ہم آئین پر انحصار کرتے ہیں، وکلاء بھی آئین پر انحصار کرتے ہیں، جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا‘، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ’چھبیسویں آئینی ترمیم ٹھیک ہے یاغلط فی الحال عدالت نے معطل نہیں کی، آپ چھبیسویں آئینی ترمیم کو آئین کا حصہ سمجھتے ہیں تب ہی چیلنج کیا ہے‘۔

(جاری ہے)

اس پر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ ’چھبیسویں آئینی ترمیم سینیٹ میں غیر معمولی طریقے سے لائی گئی تھی، چھبیسویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں رات کے وقت پاس کی گئی، سپریم کورٹ میں 21 اکتوبر کو 17 ججز موجود تھے، 25 اکتوبر کو چیف جسٹس ریٹائر ہوگئے، ججز کی تعداد 16 رہ گئی، چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست کی سماعت فُل کورٹ کرنے کی استدعا ہے‘۔

انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’سپریم کورٹ کا فل کورٹ دستیاب ہے، موجودہ آئینی بینچ کے 8 ججز بھی چھبیسویں آئینی ترمیم کے پاس ہونے کے وقت سپریم کورٹ میں موجود تھے، بقیہ 8 ججز کو بھی آئینی بینچ کا حصہ ہونا چاہیئے جو چھبیسویں آئینی ترمیم پاس ہونے کے وقت سپریم کورٹ کا حصہ تھے، چھبیسویں آئینی ترمیم سے قبل بھی جوڈیشل کمیشن موجود تھا، چھبیسویں آئینی ترمیم سے جوڈیشل کمیشن کی فارمیشن پر اثر پڑا، چھبیسویں آئینی ترمیم سے قبل جوڈیشل کمیشن میں ججز اکثریت میں تھے لیکن آئینی ترمیم میں جوڈیشل کمیشن میں ججز اقلیت میں آگئے، چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن میں اکثریت ایڈمنسٹریٹوسائیڈ پر چلی گئی جس سےآزاد عدلیہ پر اثر پڑا‘۔

اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے ہدایت کی کہ ’فی الحال میرٹ پر نہ بتائیں، آئینی بینچ کے اختیارات کے حوالے سے بتائیں‘، جسٹس محمدعلی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ’جوڈیشل کمیشن میں پارلیمینٹری کمیٹی کو شامل کر دیا گیا ہے‘، جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ ’عدالت کو بتا دیں کیوں 16 رکنی بینچ بنا دیں؟ اور ہم کس اختیار سے فل کورٹ تشکیل دیں؟‘، اس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ’جوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں، 26ویں ترمیم میں کہاں لکھا ہے جوڈیشل آرڈر نہیں ہوسکتا؟ عام مقدمات میں ایسا کیا جا رہا ہے تو اس کیس میں کیوں نہیں؟‘۔