جرمنی میں نسل پرستی اور تارکین وطن سے متعلق بحث پر ایک نظر

DW ڈی ڈبلیو اتوار 12 اکتوبر 2025 18:20

جرمنی میں نسل پرستی اور تارکین وطن سے متعلق بحث پر ایک نظر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اکتوبر 2025ء) جرمنی میں اس وقت تارکین وطن کی آمد کے موضوع کو جتنی سیاسی توجہ دی جا رہی ہے، اس کے کچھ اثرات بھی دیکھنے میں آ سکتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے کسی گلاس کو پانی سے بہت زیادہ بھر دیا جائے، تو کچھ نہ کچھ پانی گلاس کے ارد گرد گر بھی جاتا ہے۔

جرمنی میں شہری حقوق کے لیے سرگرم ایک تنظیم، 'بلیک پیپل اِن جرمنی‘ یا 'جرمنی میں سیاہ فام افراد‘ کے عہدیدار طاہر ڈیلا نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''جرمن معاشرے میں افریقی نژاد افراد کی عملی شمولیت کو یقینی بناتے ہوئے گزشتہ کئی دہائیوں میں جتنی بھی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے، وہ تارکین وطن کے موضوع پر بہت زیادہ سیاسی توجہ کے نتیجے میں ضائع بھی ہو سکتی ہے یا اس کا رخ واپسی کی طرف بھی مڑ سکتا ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

طایر ڈیلا نے کہا، ''ہم یہ پہلے ہی دیکھ رہے ہیں کہ خاص طور پر جب ترک وطن کے عمل پر بحثیں کی جاتی ہیں، تو ان کے نتیجے میں سیاہ فام افراد یا افریقی نژاد باشندوں کی موجودگی کے بارے میں بھی ایک طرح سے سوالات اٹھائے جانے لگتے ہیں۔‘‘

یورپی یونین کی ایجنسی برائے بنیادی حقوق کی رپورٹ

یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں ماضی قریب میں سیاہ فام باشندوں کے خلاف امتیازی رویوں میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اس بات کی تصدیق یورپی یونین کی ایجنسی برائے بنیادی حقوق یا مختصراﹰ 'یوفرا‘ (EUFRA) کی اس رپورٹ سے بھی ہو گئی تھی، جو سال 2023ء کے لیے جاری کی گئی تھی اور جس کا عنوان تھا: ''یورپی یونین میں سیاہ فام ہونا۔‘‘

یوفرا کی گزشتہ رپورٹ کے بعد سے جرمنی میں وفاقی حکومت اسی سال ہونے والے قومی الیکشن کے نتیجے میں بدل چکی ہے۔ ان انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی یا اے ایف ڈی نے، جو تارکین وطن کے حوالے سے اپنے بہت تنقیدی موقف کی وجہ سے جانی جاتی ہے، ملک بھر میں اپنے لیے عوامی تائید کے لحاظ سے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔

اس کے علاوہ جرمنی، جو اپنی معیشت کے لحاظ سے یورپ کا صنعتی پاور ہاؤس سمجھا جاتا ہے، کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد سے اقتصادی طور پر بہتری کی جدوجہد ہی کر رہا ہے۔ مزید یہ کہ جرمن معیشت ترقی یافتہ صنعتی ممالک کے گروپ جی سیون کی وہ واحد معیشت ہے، جس میں گزشتہ دو برسوں سے کوئی واضح ترقی نہیں ہوئی۔ آثار یہی ہیں کہ جرمن معیشت میں رواں برس مسلسل تیسرے سال بھی تقریباﹰ جمود ہی کی صورت حال رہے گی۔

کئی تارکین وطن حلقوں کی رائے میں یہ وہ عوامل ہیں، جن کے ملک میں تارکین وطن، خاص کر سیاہ فام افراد کے حوالے سے بھی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

زیریں صحارا کے افریقی ممالک کے تارکین وطن

یوفرا کے سروے میں جرمنی میں جن سیاہ فام باشندوں سے ان کی رائے لی گئی، ان میں سے اکثریت کا تعلق افریقہ میں زیریں صحارا کے خطے کی ریاستوں سے تھا۔

ایسے باشندے اب یہ بھی سوچنے لگے ہیں کہ آیا جرمنی میں ان جیسے افریقی تارکین وطن کو اب ناکامی کا سامنا کرنا پڑنے لگا ہے۔

جرمن معاشرے میں زیریں صحارا کے افریقی ممالک کے باشندوں میں تارکین وطن کے دیگر نسلی گروپوں کے مقابلے میں بےروزگاری زیادہ ہے، جو قریب 16 فیصد بنتی ہے۔ بے روزگاری کی یہ شرح ملک میں مقامی جرمن شہریوں میں بے روزگاری کی شرح کے مقابلے میں تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔

اس کے علاوہ ایسے افریقی یا افریقی نژاد باشندوں میں بے روزگار ہونے کی شرح تارکین وطن کے دیگر نسلی گروپوں کے مقابلے میں بھی دو فیصد زیادہ ہے۔ ایسے تارکین وطن جب کوئی کام کرتے ہیں، تو ان کی آمدنی بھی کم ہوتی ہے۔

بینن میں پیدا ہونے والے آرنو ڈی سوزا کی مثال

جرمنی میں آباد سیاہ فام تارکین وطن میں سے ایک آرنو ڈی سوزا بھی ہیں، جو افریقی ملک بینن میں پیدا ہوئے تھے۔

اس مغربی افریقی باشندے کی نسلی جڑیں افریقہ اور برازیل دونوں سے جڑی ہوئی ہیں اور وہ گزشتہ دس سال سے برلن کے ایک ہسپتال میں نرسنگ اسسٹنٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

ان کی ٹیکس کی ادائیگی سے پہلے کی ماہانہ تنخواہ 3100 یورو (3655 ڈالر کے برابر) بنتی ہے، جو کہ ان جیسے کسی بھی دوسرے نرسنگ اسسٹنٹ کی اس ماہانہ اوسط تنخواہ کے مقابلے میں کم ہے، جو 3363 یورو ہوتی ہے۔

جریدے 'نیچر‘ میں جولائی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق زیریں صحارا کے افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی ماہانہ آمدنی اور نسلی طور پر جرمن والدین کے ہاں پیدا ہونے والے جرمن شہریوں کی ماہانہ آمدنی میں فرق سب سے زیادہ بنتا ہے۔

آرنو ڈی سوزا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے ہسپتال میں کچھ مریض اس بات سے انکار کر دیتے ہیں کہ ان کی طبی دیکھ بھال کوئی سیاہ فام ہیلتھ ورکر کرے۔

ان کے بقول صحت کے شعبے میں امتیازی رویے کافی عام ہیں اور جگہ جگہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ جرمن ہیلتھ سیکٹر میں رنگ اور نسل کی بنیاد پر ایسے امتیازی رویوں کی کافی زیادہ موجودگی کی تصدیق گزشتہ برس تیار کردہ ایک رپورٹ سے بھی ہو گئی تھی، جو امتیازی رویوں کے خلاف وفاقی جرمن دفتر کے ایما پر تیار کی گئی تھی۔

نسل پرستی اور غربت میں باہمی تعلق ہے، جرمن مطالعے کے نتائج

آرنو ڈی سوزا نے مزید کہا کہ ان کے لیے وفاقی جرمن دارالحکومت برلن میں رہنا اور کام کرنا ہمسایہ وفاقی ریاست برانڈنبرگ میں رہنے اور کام کرنے سے زیادہ پرکشش ہے، حالانکہ برلن میں رہائش زیادہ مہنگی اور دیگر اخراجات کافی زیادہ ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا، ''جرمنی میں ہیلتھ سیکٹر میں اگر آپ کام کرتے ہیں، تو یہ بات انتہائی اہم ہوتی ہے کہ آپ کس طرح کی ٹیم کے ساتھ کام کرتے ہیں۔‘‘

کم تنخواہوں والی ملازمتوں پر زیادہ کارکن افریقی نژاد

جرمنی میں تارکین وطن اور مقامی باشندوں کے مابین اجرتوں کے فرق سے متعلق جو تحقیق حال ہی میں مکمل کی گئی، اس کے مصنفین نے اس فرق کی وجہ ''تقسیم یا درجہ بندی کا عمل‘‘ بتائی۔

اس کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا کہ جرمنی میں کم اجرتوں والی ملازمتیں کرنے والے افراد میں افریقی باشندوں کی شرح غیر متناسب حد تک زیادہ ہے۔ مثلاﹰ ایسا کیوں ہے کہ صفائی کا کام کرنے والے کارکنوں میں زیادہ تر افریقی تارکین وطن یا افریقی نژاد باشندے ہوتے ہیں؟

یہی مسائل یورپی یونین کی سطح پر بھی

'پے گیپ‘ سے متعلق اس سوشل ریسرچ کے مصنفین کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جرمنی میں روزگار کی آسامیوں پر بھرتی کے عمل کے دوران امتیازی رویے بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

مثلاﹰ اگر پیشہ وارانہ تربیت کے لیے درخواستیں دی جائیں، تو جن امیدواروں کے ناموں کا آخری حصہ واضح طور پر افریقی ہو، ان کے ووکیشنل ٹریننگ کے لیے منتخب کیے جانے کا امکان کچھ کم ہوتا ہے۔

لیکن یہ مسئلہ صرف جرمنی میں ہی نہیں، بلکہ پوری یونین یونین کی سطح پر بھی کسی نہ کسی حد تک پایا جاتا ہے۔ خاص طور پر سیاہ فام افراد کو یونین کے رکن دیگر ممالک میں بھی اپنے لیے روزگار، رہائش گاہ کے حصول یا دیگر معاملات میں امتیازی رویوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کا امکان تو ہمیشہ ہی ہوتا ہے۔

اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جن افراد کے ساتھ امتیازی رویوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، وہ اگر ایسے رویوں کو باقاعدہ رپورٹ کریں، تو ان سے بھی بہت کچھ منظر عام پر آ سکتا ہے۔ تاہم ایسے واقعات کا سامنے آنا اس امر کی مکمل عکاسی تو نہیں کرتا کہ سماجی طور پر غیر مقامی یا تارکین وطن باشندوں کو حقیقتاﹰ کس طرح کی صورت حال سے گزرنا پڑتا ہے اور انہیں کس کس نوعیت کے تجربات ہوتے ہیں۔