ہاسٹل بحران: بڑے شہروں میں رہائشی کمرے تلاش کرتے طلبہ کہاں جائیں؟

DW ڈی ڈبلیو اتوار 12 اکتوبر 2025 15:40

ہاسٹل بحران: بڑے شہروں میں رہائشی کمرے تلاش کرتے طلبہ کہاں جائیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اکتوبر 2025ء) اپنے آبائی علاقوں سے دور دیگر شہروں میں حصول تعلیم کے لیے منتقل ہونے والے ان طلبہ کے لیے اپنی رہائش کا انتظام کرنا ایک بڑا مسئلہ ثابت ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں گزشتہ ہفتے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پریس کلب کے باہر مختلف یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات نے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی یا سی ڈی اے کی جانب سے نجی ہاسٹلوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے احتجاج کیا۔

یہ احتجاج اسٹوڈنٹس کوآرڈینیشن کمیٹی کی کال پر کیا گیا، جس کی قیادت یوتھ لیڈر سوسائٹی کے صدر دانیال عبداللہ کر رہے تھے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''لاکھوں طلبہ تعلیم کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں، مگر تعلیمی ادارے رہائشی ضروریات پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

اب مقامی انتظامیہ نجی ہاسٹل بھی بند کرا رہی ہے۔

تو ایسی صورت حال میں طلبہ کہاں جائیں؟"

رہائش کا یہ مسئلہ محض اسلام آباد تک ہی محدود نہیں، جہاں 800 سے زائد نجی ہاسٹل قائم ہیں۔ ملک کے سبھی بڑے شہروں میں غیر مقامی طلبہ کو رہائش کے شدید بحران کا سامنا ہے۔

پاکستانی طلبا و طالبات بیرون ملک تعلیم کے لیے اسکالرشپس کیسے حاصل کریں؟

پاکستان کے ہائی ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے مطابق ملکی یونیورسٹیوں میں اس وقت تقریباً انیس لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں، مگر ان میں سے ایک لاکھ سے بھی کم کے لیے یونیورسٹیوں کے اپنے ہاسٹل دستیاب ہیں۔

یہ تعداد طلبہ کی مجموعی تعداد کا صرف تقریباﹰ پانچ فیصد بنتی ہے۔

ہاسٹلوں کا بحران صرف اسلام آباد تک محدود نہیں

دانیال عبداللہ کے مطابق اسلام آباد غیر مقامی طلبہ کے رہائشی بحران کی محض ایک جھلک پیش کرتا ہے، ورنہ یہ مسئلہ ملک کے تقریباً تمام ایسے بڑے شہروں میں یکساں شدت کے ساتھ موجود ہے، جہاں طلبہ تعلیم کے لیے منتقل ہوتے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اسلام آباد میں تقریباً 35 یونیورسٹیاں یا ان کے ذیلی کیمپس قائم ہیں، اگر بین الاقوامی اداروں سے منسلک تعلیمی مراکز کو بھی شامل کیا جائے تو یہ تعداد 50 سے زائد بنتی ہے۔ ان میں سے محض سات جامعات کے اپنے ہاسٹل ہیں۔ اس وجہ سے بیسیوں ہزار طلبہ کو نجی ہاسٹلوں میں رہنا پڑتا ہے۔"

انہوں نے طلبہ کی احتجاجی مہم کی وجہ بتاتے ہوئے کہا، ''چند ماہ قبل وزارت داخلہ نے اسلام آباد کے رہائشیوں کی ایک ڈیٹا بیس تیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے لیے گھر گھر جا کر سروے کرنا شروع کیا گیا۔

جب ان ٹیموں کو پتا چلا کہ بعض گھروں میں طلبہ بھی رہائش پذیر ہیں، تو انہوں نے اس کی اطلاع سی ڈی اے کو دی اور سی ڈی اے حکام نے آ کر ان ہاسٹلوں کو سیل کرنا شروع کر دیا۔ ہم اسی ناانصافی کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے۔‘‘

پاکستانی یونیورسٹیز میں طلبہ کی تعداد 13 فیصد کم، وجوہات کیا؟

اس بارے میں سی ڈی اے کا موقف یہ ہے کہ رہائشی علاقوں میں کوئی ہاسٹل قائم کرنا ایک تجارتی سرگرمی تصور کی جاتی ہے، جو غیر قانونی ہے۔

اس پر دانیال عبداللہ پوچھتے ہیں، ''اگر طلبہ رہائشی علاقوں میں نہیں رہ سکتے، تو پھر وہ رہیں کہاں؟"

لاہور میں صورت حال

ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں جی سی یونیورسٹی کے طالب علم رہنما راؤ محمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہماری یونیورسٹی میں 10 ہزار سے زائد طلبہ ہیں جبکہ آن کیمپس رہائش کی سہولت بمشکل 1500 طلبہ کو میسر ہے۔

اس لیے غیر مقامی طلبہ کی اکثریت نجی ہاسٹلوں میں قیام پر مجبور ہے، جو اکثر بہت زیادہ رش والی اور ناقابل رہائش جگہوں پر ہوتے ہیں۔"

پاکستانی میڈیکل کالجوں میں طلبہ کو ہراساں کیے جانے کا رجحان

یونیورسٹی لائف میں آن کیمپس ہاسٹل ملنا ایک عیاشی سمجھی جاتی ہے، جس سے نجی ہاسٹلوں کے رہائشی طلبہ لطف اندوز نہیں ہو سکتے اور اکثر اس کا شکوہ بھی کرتے ہیں۔

اسی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اسلام آباد کی نسٹ یونیورسٹی کے طالب علم علی نقی نے کہا، ”یونیورسٹی سے باہر ہاسٹل میں رہنا کسی عذاب سے کم نہیں۔ روزانہ آنا جانا، باہر نکلیں تو شور، اندر بیٹھے رہیں تو تنہائی۔ نہ پیدل سیر کرنے کے لیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی اچھا کھانا نصیب ہوتا ہے۔ پھر بجلی کے بل اور ہاسٹل کے کرائے کی پریشانی علیحدہ اور انٹرنیٹ پیکج کا خرچہ اضافی۔

یہ لاکھوں نوجوانوں کا المیہ ہے، جسے صرف ایسے طلبہ ہی سمجھ سکتے ہیں۔"

تعلیمی کارکردگی پر اثرات

پاکستانی دارالحکومت میں قائد اعظم یونیورسٹی کی پختون اسٹوڈنٹس کونسل کے کوآرڈینیٹر شہزاد طوری نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یونیورسٹی کی ہاسٹل لائف نہ صرف سہولیات میں بہتر اور سستی ہوتی ہے بلکہ ایک منظم اور محفوظ تعلیمی ماحول کا احساس بھی دلاتی ہے۔

آن کیمپس ہاسٹلز طلبہ کے درمیان ایک تعلیمی برادری ہونے کا احساس پیدا کرتے ہیں اور وہ ہر وقت کسی نہ کسی سرگرمی میں مصروف رہتے ہیں۔ اس کے برعکس نجی ہاسٹلوں کے رہائشی طلبہ اکثر تنہائی، غیر متعلقہ ماحول اور بے ترتیبی کا شکار رہتے ہیں، جس کا براہ راست اثر ان کی تعلیمی کارکردگی اور ذہنی اطمینان پر بھی پڑتا ہے۔"

کاروباری اداروں میں تبدیل ہو چکی پاکستانی یونیورسٹیاں

اسی طرح قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ ریاضی کی طالبہ فاطمہ احمد نے کہا، ''میں دو سال بھارہ کہو میں رہی، ہاسٹل مین روڈ پر تھا۔

ہر وقت شور، رات گئے تک گاڑیوں کے ہارن سنتے رہنے کی مجبوری، جیسے ہاسٹل نہ ہوا کوئی بس اسٹینڈ ہو گیا۔ انٹرنیٹ پیکج جلد ختم ہو جانے کا خوف اور کھانا تو بس آنکھیں بند کر کے پیٹ بھرنے والی بات تھی۔ اب میں یونیورسٹی ہاسٹل میں رہتی ہوں۔ یہاں جم ہے، انٹرنیٹ ہے، ہر وقت کوئی نہ کوئی سوشل سرگرمی رہتی ہے۔ ماحول بھی پرسکون ہے، کھڑکی کھولیں تو ٹریفک کا شور سنائی دینے کے بجائے سرسبز درخت نظر آتے ہیں۔

ان سب کے لیے سمسٹر کے آغاز پر 22 ہزار روپے جمع کرانا ہوتے ہیں، حالانکہ میں نجی ہاسٹل میں تو 12 بارہ ہزار روپے ماہانہ کرایہ دیتی تھی۔"

طلبہ کے لیے بہتر ہاسٹل سہولیات کی دستیابی کیسے؟

اسلام آباد کی اسٹوڈنٹس کوآرڈینیشن کمیٹی میں طالبات کے ہاسٹلز کی ذمے دار خدیجہ کوثر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ”یہ دراصل یونیورسٹیوں کی ذمے داری ہے کہ وہ طلبہ کے لیے رہائش کا بندوبست کریں۔

اگر ان کے اپنے ہاسٹل ناکافی ہیں، تو مختلف عمارتیں کرائے پر لے کر طلبہ کو رہائش مہیا کی جائے۔‘‘

تعلیمی بجٹ میں اضافہ: سیاسی جماعتیں اپنے وعدوں سے مُکر گئیں

اس حوالے سے دانیال عبداللہ نے کہا، ”یونیورسٹیاں سی ڈی اے سے پلاٹ لیتی ہیں، جو ہاسٹلز کی تعمیر کے لیے ہوتے ہیں، مگر وہاں رہائش گاہیں تعمیر نہیں کی جاتیں۔ نجی ہاسٹل بند کرنے سے پہلے سی ڈی اے کو چاہیے کہ وہ یونیورسٹیوں کے انتظامی اداروں سے پوچھے کہ ہاسٹلوں کے لیے دی گئی زمینوں پر واقعی کتنے ہاسٹل تعمیر کیے گئے؟‘‘

دوسری طرف یونیورسٹیاں اس سلسلے میں عموماﹰ محدود بجٹ کی شکایات کرتے ہوئے کم وسائل کا حوالہ دیتی ہیں۔

دانیال عبداللہ کے مطابق، ''چند روز قبل سی ڈی اے حکام نے ہمیں ایک میٹنگ میں بتایا کہ وہ شہر کے ہر سیکٹر میں طلبہ کی رہائش گاہوں کے لیے پلاٹ مختص کرنے پر کام کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں سستے اور قانونی ہاسٹل قائم کیے جا سکیں‘‘

ادارت: مقبول ملک