سرحدی کشیدگی؛ حافظ طاہر محمود اشرفى نے افغانستان کو پیغام دے دیا

نہ ہم برطانیہ ہیں، نہ روس اورنہ نیٹو، ہماری مقتدر افواج نے جو ردعمل دیا وہ آغاز ہے، اگر ہمارے ملک کی سلامتی اور استحکام سے کھیلنے کی کوشش کرو گے تو اس کے نتائج کے ذمہ دار تم خود ہو؛ بیان

Sajid Ali ساجد علی اتوار 12 اکتوبر 2025 11:36

سرحدی کشیدگی؛ حافظ طاہر محمود اشرفى نے افغانستان کو پیغام دے دیا
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 12 اکتوبر2025ء ) پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری سرحدی کشیدگی کے دوران علماء کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر محمود اشرفى نے افغانستان کو پیغام دے دیا۔ اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ میرا بھائی افغانستان جس کے لیے کروڑوں پاکستانیوں نے جان مال قربان کیا آج وہ ہمارے وطن پر حملہ آور ہے، نہ ہم برطانیہ ہیں، نہ روس اورنہ نیٹو مگر ہم پاکستان ہیں ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میرے ملک میں مداخلت بند ہونی چاہیے، ہمیں امید ہے کہ تم سمجھ گئے ہوگے کہ آج ہماری مقتدر افواج نے جو ردعمل دیا وہ آغاز ہے، اگر تم ہمارے ملک کی سلامتی اور استحکام سے کھیلنے کی کوشش کرو گے تو اس کے نتائج کے ذمہ دار بھی تم خود ہو۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ افغانی جارحیت اور اس پر پاکستان کا ردعمل کسی طور بھی پاکستان اور افغانستان کی عوام کے درمیان جنگ تصور نہ کیا جائے، افغانی جارحیت دراصل افغان عبوری حکومت، افغان طالبان اور فتنہ الخوارج جیسے دہشت گرد عناصر کی جانب سے مسلط کردہ ہے، پاکستان اپنی سکیورٹی اور سرحدی سالمیت کے دفاع کے لیے کسی بھی فورس کا مؤثر جواب دینے سے پہلے پیچھے نہیں ہٹے گا۔

(جاری ہے)

حکومتی ذرائع کے مطابق افغانی جارحیت بھارتی پیسوں سے مبینہ طور پر خریدی گئی ہے، پاکستان کا جوابی حملہ صرف دہشت گرد ٹھکانوں، ان کے تربیتی مراکز اور ان عناصر پر ہوگا جو پاکستان کے خلاف اس جنگ کو ہوا دے رہے ہیں، یہ جنگ دراصل پاکستان اور افغانستان کی عوام کے درمیان نہیں بلکہ افغانستان میں موجود بھارتی پرست شرپسند عناصر کے خلاف ہے، جوابی کارروائی کو ہرگز پاکستان اور افغانستان کی عوام کے درمیان جنگ تصور نہیں کیا جانا چاہیئے، کارروائی کے دوران جہاں ممکن ہوا کوشش کی گئی کہ غیر جنگجو افراد اور شہری املاک کو نقصان نہ پہنچے اور مستقل طور پر امن کی بحالی کے لیے سفارتی چینلز کو کھلا رکھا جائے۔

حکومتی ذرائع کہتے ہیں کہ موجودہ حملے عام افغان شہریوں یا اُن کے علاقوں کے خلاف کوئی سازش نہیں بلکہ افغان عبوری حکومت، افغان طالبان اور فتنۃ الخوارج جیسے دہشت گرد عناصر کی شناخت شدہ حرکتوں کا نتیجہ ہیں، پاکستان نہ افغان عوام اور نہ افغانستان کے عوامی مقامات کو نشانہ بنانا چاہتا ہے بلکہ فارمیشن کا مقصد محض سرحد پار سے اٹھنے والی، ریاستی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والی سرگرمیوں کا خاتمہ ہے، جوابی کارروائی میں مشترکہ فورسز نے مخصوص اہداف کو فضائی و زمینی آپریشنز کے ذریعے نشانہ بنایا اور محاذ پر دستیاب شواہد سے ثابت ہوا کہ کارروائی دہشت گرد نیٹ ورکس کو کمزور کرنے کے لیے مؤثر ثابت ہوئی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ یہ آپریشن عام شہری آبادی یا سول انفراسٹرکچر کے بجائے روایتی فوجی اہداف، تربیتی کیمپوں اور خفیہ ٹھکانوں تک محدود رہے، پاکستانی حکام نے بین الاقوامی برادری کو یہ باور کرانے کی کوشش بھی کی ہے کہ کشیدگی کی اصل جڑ سرحد پار موجود مسلح عناصر اور بیرونی مالی و لاجسٹک امداد ہے، یہی عناصر خطے میں عدم استحکام پھیلا رہے ہیں، خطے میں امن کے لیے دونوں ممالک کے عوام کا مفاد مشترک ہے، اس لیے سکیورٹی کارروائیاں عوام کے خلاف نہیں بلکہ عسکری تنظیموں اور اُن کی معاونت کرنے والی بیرونی قوتوں کے خلاف ہیں۔