سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت کل تک ملتوی

منگل 14 اکتوبر 2025 16:55

سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم  کیس  کی سماعت کل تک ملتوی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 اکتوبر2025ء) سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت بدھ15اکتوبر تک ملتوی کردی گئی ۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آٹھ رکنی آئینی بینچ نے منگل کو درخواستوں پر سماعت کی ،بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل تھے ۔

سماعت کے آغاز پر انٹرنیٹ کی خرابی کے باعث ویڈیو لنک براہِ راست نشر نہ ہو سکا۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ’’آج انٹرنیٹ کا مسئلہ ہے، لائیو اسٹریم نہیں ہوسکے گی۔‘‘ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’’لائیو اسٹریمنگ کا لنک ڈاؤن ہے، چیک کرتے ہیں اگر لائیو ہوجائے۔

(جاری ہے)

‘‘دوران سماعت درخواست گزاروں کی جانب سے سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری ایڈووکیٹ نے دلائل دیئے ۔

عابد زبیری نے مؤقف اختیار کیا کہ آئینی ترمیم سے پہلے موجود ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایا جائے تاکہ فیصلہ اجتماعی دانش (Collective Wisdom) کی بنیاد پر ہو۔اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئےکہ ایک جانب آپ سولہ ججز کا کہہ رہے ہیں اور دوسری جانب کلیکٹو وزڈم کی بات کر رہے ہیں، پہلے اپنی استدعا تو واضح کریں کہ ہے کیا۔جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ ہمارے سامنے آرٹیکل 191-اے موجود ہے جو آئین کا حصہ ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں اسے سائیڈ پر رکھ دیں لیکن آئین کے کسی آرٹیکل کو کیسے سائیڈ پر رکھا جا سکتا ہے؟ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ یہ سیدھا سیدھا عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے، اپیل کا حق دینا یا نہ دینا اب جوڈیشل کمیشن کے ہاتھ میں ہے، اگر کمیشن چاہے تو اضافی ججز نامزد کرکے اپیل کا حق دے سکتا ہے۔

سپریم کورٹ رولز 2025 پر بھی بینچ کے ارکان کے درمیان تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز 24 ججز کے سامنے بنائے گئے تھے، میٹنگ منٹس منگوائے جائیں تاکہ واضح ہو کہ کون سی شقیں کمیٹی کو بھیجی گئی تھیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سب کے سامنے رولز نہیں بنے،اس حوالے سے میرا نوٹ موجود ہے۔اٹارنی جنرل نے اس معاملے کو عدالت کے اندرونی امور قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے اس فورم پر ڈسکس نہ کیا جائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ کمیٹی کے پاس بینچز بنانے کا اختیار ہے، فل کورٹ بنانے کا نہیں۔ کمیٹی کے اختیارات کو چیف جسٹس کے اختیارات نہیں کہا جا سکتا۔عابد زبیری نے فل کورٹ اور ریگولر بنچ بارے آئینی نکات بھی پیش کیے اور کہاکہ فل کورٹ آئینی بنچ نہیں ہوتا ۔انہوں نے اس ضمن میں مخصوص نشستوں کے کیس کا حوالہ بھی پیش کیا گیا اور موقف اپنایا کہ چیف جسٹس کے پاس اب بھی فل کورٹ تشکیل دینے کا اختیار موجود ہے، عدالت فل کورٹ تشکیل دینے کی ہدایت دے سکتی ہے۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت بدھ 15اکتوبر کی صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔\932