اعصابی امراض سے ہر سال ایک کروڑ دس لاکھ اموات، ڈبلیو ایچ او

یو این منگل 14 اکتوبر 2025 23:45

اعصابی امراض سے ہر سال ایک کروڑ دس لاکھ اموات، ڈبلیو ایچ او

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 14 اکتوبر 2025ء) عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ رکن ممالک کو اعصابی بیماریوں کے علاج کے لیے سرمایہ کاری اور نگہداشت کو بڑھانے کی ضرورت ہے جو ہر سال ایک کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ اموات کا سبب بنتی ہیں۔

اس موضوع پر 'ڈبلیو ایچ او' جاری کردہ پہلی رپورٹ کے مطابق، دنیا کی 40 فیصد سے زیادہ آبادی یا تین ارب سے زیادہ لوگ اعصابی امراض سے متاثر ہیں۔

فالج، آدھے سر کا درد، گردن توڑ بخار، الزائمر اور کئی طرح کی دماغی کمزوری کا شمار 10 عام عصبی بیماریوں میں ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ قبل از وقت پیدائش، آٹزم اور اعصابی نظام کے سرطان سے جڑی پیچیدگیاں بھی انہی امراض میں شمار ہوتی ہیں۔

Tweet URL

'ڈبلیو ایچ او' کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر جیریمی فیرر نے کہا ہے کہ دنیا کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی دماغی صحت کے کسی نہ کسی مسئلے کا شکار ہے تو ایسے میں وہ سب کچھ کرنا بہت ضروری ہے جس سے لوگوں کو درکار طبی سہولیات میں بہتر آ سکے۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا ہے کہ بہت سی اعصابی بیماریاں قابل علاج یا قابل تدارک ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود زیادہ تر مریضوں بالخصوص دیہی اور غریب علاقوں میں لوگوں کو ان سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ دنیا کے ایک تہائی سے بھی کم ممالک نے ان بڑھتی ہوئی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے کوئی قومی پالیسی ترتیب دی ہے۔

عصبی امراض سے بے توجہی

'ڈبلیو ایچ او' کو اس رپورٹ کی تیاری میں اپنے 194 رکن ممالک میں صرف 102 کی جانب سے ہی خاطرخواہ معلومات فراہم کی گئیں جسے ادارے نے اعصابی امراض پر توجہ میں کمی کا مظہر قرار دیا ہے۔

حیران کن طور پر، دنیا کے صرف 63 ممالک ہی ایسے ہیں جن کے پاس عصبی امراض سے نمٹنے کے لیے کوئی قومی پالیسی موجود ہے اور صرف 34 ممالک ان بیماریوں سے نمٹنے کے لیے باقاعدہ فنڈنگ مختص کرتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، کم آمدنی والے ممالک میں دماغی و عصبی امراض کے ماہرین کی تعداد امیر ممالک کے مقابلے میں 80 گنا کم ہے۔ علاوہ ازیں، اعصابی امراض میں مبتلا بیشتر افراد کے لیے بنیادی طبی سہولیات تک رسائی ممکن نہیں ہوتی کیونکہ صرف 25 فیصد ممالک ہی ایسے ہیں جنہوں نے عصبی امراض کو 'یونیورسل ہیلتھ کوریج' کا حصہ بنایا ہے۔

کم آمدنی والے ممالک کے بیشر ہسپتالوں میں فالج کے خصوصی یونٹ دستیاب نہیں ہوتے اور بچوں کے لیے عصبی امراض کے علاج کی سہولت موجود نہیں ہوتی۔ ایسی بیشر سہولیات عموماً شہری علاقوں تک محدود رہتی ہیں اور دیہی یا غریب علاقے اس سے محروم ہوتے ہیں۔

دماغی صحت پر سرمایہ کاری

اگرچہ عصبی امراض عموماً تاعمر دیکھ بھال کا تقاضا کرتے ہیں تاہم صرف 46 ممالک ایسے ہیں جہاں نگہداشت فراہم کرنے والوں کے لیے مخصوص خدمات دستیاب ہیں اور صرف 44 ممالک نے ایسے افراد کے لیے قانونی تحفظات وضع کیے ہیں۔

اس طرح غیر رسمی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں (جن میں بیشتر خواتین ہیں) کی خدمات کو نہ صرف سماجی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں کوئی معاونت بھی حاصل نہیں ہوتی۔

'ڈبلیو ایچ او' نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ عصبی امراض کو اپنی پالیسیوں میں ترجیح دیں اور مسلسل سرمایہ کاری کے ذریعے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کریں۔ یونیورسل ہیلتھ کوریج کو فروغ دے کر تمام لوگوں کو ان بیماریوں کی دیکھ بھال تک رسائی دی جا سکتی ہے اور دماغی صحت کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور مجموعی طبی نظام کو مضبوط بنا کر ان بیماریوں پر بہتر طریقے سے قابو پایا جا سکتا ہے۔

متعلقہ عنوان :