Doctor Lumar Ka Eesaar - Article No. 2621

ڈاکٹر لومڑ کا ایثار - تحریر نمبر 2621
ڈاکٹر لومڑ دل ہی دل میں بہت خوش تھا کہ مشکل وقت میں آج وہ کسی کے کام آیا
منگل 16 جنوری 2024
دو دن سے جنگل میں شدید بارش ہو رہی تھی۔سب جانور اپنے اپنے گھروں میں دُبکے بیٹھے تھے۔بارش کی وجہ سے سردی میں اچانک اضافہ ہو گیا۔ریچھ بارش کی وجہ سے دو دن سے شکار پر نہ جا سکا تھا۔اس کی بیوی بھی پریشان بیٹھی تھی۔ان کے بچے بھی بھوک سے نڈھال ہو رہے تھے۔لگ رہا تھا کہ بارش کا یہ سلسلہ کئی دن جاری رہے گا۔بھوک سے بچے بلک رہے تھے اور چھوٹے کو تو بخار ہو گیا تھا۔ماں سے یہ دیکھا نہ جا رہا تھا۔ریچھ دروازے کی سیڑھیوں پر سر جھکائے پریشان بیٹھا تھا۔
”تم شکار پر کیوں نہیں جاتے؟“بیوی نے ریچھ سے کہا تو اس نے غصے سے بیوی کو دیکھا:”اتنے زوروں کی بارش ہو رہی ہے،میں خوراک کا بندوبست کیسے کروں؟“
یہ سن کر تھوڑی دیر وہ خاموش رہی۔
(جاری ہے)
ریچھ کی بیوی نے تھوڑی دیر بعد پھر کہا:”باہر جاؤ،بچے بھوکے ہیں۔زمین پر پڑے پھل مل جائیں تو لے آؤ۔“
ریچھ خاموش ہی رہا۔ننھا ریچھ یہ سب باتیں سن رہا تھا۔وہ چپکے سے اُٹھا اور بغیر بتائے بارش میں ہی باہر نکل آیا۔اس نے چند دن پہلے بیری کے ایک درخت پر شہد کا چھتا دیکھا تھا۔وہ برستی بارش میں اُدھر کو چل پڑا۔اسے بھوک لگ رہی تھی،کیونکہ دو دن سے اس نے کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔اچانک بارش تیز ہو گئی۔اسے اپنی والدہ اور والد کی یاد آئی،لیکن اب وہ آدھے راستے تک پہنچ چکا تھا،اس لئے خالی ہاتھ واپس جانا نہیں چاہتا تھا۔گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔جب وہ بیری کے درختوں کے پاس پہنچا تو وہ سب کچھ بھول گیا۔اچھا خاصا اندھیرا ہو گیا تھا۔جب وہ بیری کے پاس پہنچا تو اس وقت اولے برس رہے تھے۔اس نے بھوک کی شدت میں کسی قسم کی پروا نہیں کی اور بڑی مشکل سے اس درخت کے پاس پہنچ گیا،لیکن اب وہاں شہد کا چھتا نہیں تھا۔اولے تیزی سے برس رہے تھے۔اس کا سارا جسم پانی سے بھیگ گیا تھا۔شہد نہ پا کر اس کی بھوک اور بھی بڑھ گئی تھی۔وہ خود کو بہت کمزور محسوس کر رہا تھا۔اولوں سے بچنے کے لئے وہ ایک درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا۔اس حالت میں کافی دیر گزر گئی۔
دوسری طرف اس کے والدین اس کی تلاش میں بے چین ہو گئے تھے۔ریچھ جو بارش میں گھر سے نہیں نکل رہا تھا،اب جنگل میں مارا مارا پھر رہا تھا۔کافی دیر بعد بارش کا زور ٹوٹا تو ننھا ریچھ وہاں سے گھر کی طرف چل پڑا،اسے سخت سردی لگ گئی تھی۔جسم کانپ رہا تھا۔اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا آہستہ آہستہ چلنے لگا۔تھوڑی دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ اپنے گھر کا راستہ بھول گیا ہے۔ریچھ کے بچے کو ڈر لگنے لگا۔اچانک ایک طرف سے آواز آئی۔جیسے کوئی اس کا نام لے کر پکار رہا ہو۔
”کون ہے! کون ہے وہاں؟“ اس نے اونچی آواز میں پوچھا۔
”تم کہاں ہو؟“ اسے اپنے والد کی آواز سنائی دی۔تھوڑی دیر بعد ریچھ اپنے بچے کو بازوؤں میں اُٹھائے گھر لے آیا۔بھوک اور سردی سے وہ کانپ رہا تھا۔
”اس کی دوا لانی پڑے گی۔“ ماں نے بچے کی حالت دیکھتے ہوئے کہا تو ریچھ نے سر کو ہلایا۔بارش کافی حد تک کم ہو گئی تھی،لیکن ابھی ہلکی پھلکی بارش ہو رہی تھی۔ریچھ نے کہا:”بارش رکے گی تو جاؤں گی۔“
ڈاکٹر بندر جو ڈاکٹر لومڑ کا خاص شاگرد تھا،اس نے اپنا الگ کلینک کھول لیا تھا۔ڈاکٹر لومڑ جنگل کا سب سے پرانا طبیب تھا،لیکن اب وہ جنگل کے بادشاہ شیر کی طرح بوڑھا ہو چکا تھا۔اتنی سردی میں کسی کے گھر مریض دیکھنے جانا اس کی صحت کے لئے نقصان دہ تھا۔اس کے باوجود جنگل کے جانور اپنے بچوں کی دوا لینے اس کے پاس پہنچ جاتے اور اسے مجبوراً جانا پڑتا۔اب اتنی شدید بارش میں کوئی اس کا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا اور ڈاکٹر لومڑ میں ہمت نہیں تھی کہ وہ اُٹھ کر دروازے تک جائے۔
اس نے وہیں سے کہا:”کون ہے؟“ اس کی آواز میں بے زاری تھی۔
”ڈاکٹر صاحب!میرے بچے کو سردی لگ گئی ہے،مہربانی کر کے اس کے لئے کوئی دوا یا کوئی جڑی بوٹی دے دیں۔“
وہ جنگل کا ایک شریف ریچھ تھا،اس لئے ڈاکٹر لومڑ نے کہا:”تم ڈاکٹر بندر کے پاس چلے جاؤ،میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔“
”میں وہاں گیا تھا وہ دوا کی قیمت میں خوراک مانگتا ہے،میں خود دو دن سے بھوکا بیٹھا ہوں،اسے کہاں سے کھانے کو کچھ دوں۔“
ڈاکٹر لومڑ کو اس پر رحم آ گیا۔اس نے کچھ کھانے کا سامان باندھا اور اس کے ساتھ روانہ ہو گیا۔جب وہ گھر پہنچے تو ڈاکٹر لومڑ نے ننھے ریچھ کو پہلے شہد چٹایا۔شہد سردی میں بہت مفید ہوتا ہے۔اس کے بعد اسے جنگلی پھل کھانے کے لئے دیے۔ڈاکٹر لومڑ بہت سارے پھل لایا تھا۔سب نے تھوڑا تھوڑا کھایا۔
ڈاکٹر کے کہنے پر ننھے ریچھ کو جنگلی خشک گھاس علاج کے طور پر دی گئی،جس سے تھوڑی دیر بعد اس کے جسم کا درجہ حرارت بہتر ہو گیا۔اس کے بعد اسے جڑی بوٹیاں دی گئی،جن کے اثر سے وہ سو گیا۔اس کے والدین نے اللہ کا شکر ادا کیا۔اتنی دیر میں بارش تھم چکی تھی۔ڈاکٹر لومڑ دل ہی دل میں بہت خوش تھا کہ مشکل وقت میں آج وہ کسی کے کام آیا۔اس خوشی میں کیچڑ میں واپس جانا بھی اسے بُرا نہیں لگ رہا تھا۔
Browse More Moral Stories

ایمانداری کا صلہ
Imaandari Ka Sila

عقل کا آلہ
Aqal Ka Aala

بھینس کے بارے میں معلومات
Bhens K Bare Main Malomat

میلا اور بیل
Maila Aur Bail

غلطی کا احساس
Ghalti Ka Ehsas

خفیہ نیکی
Khufia Naike
Urdu Jokes
دو دوست
do dost
دوکاندار گاہک سے
dukandar gahak se
ایک آدمی پرندوں کی دوکان
aik aadmi parindon ki dukaan
گاجریں
gajaren
دماغ غیر حاضر
Dimagh Ghair Hazir
ڈاکٹر
Doctor
Urdu Paheliyan
سورج کے جانے پر تین
sooraj ke jane per teen
جانور اک ایسا بھی دیکھا۔۔۔
janwar aik aisa bhi dekha
مار پٹی تو شور مچایا
maar piti tu shor machaya
کوئی بادل اور نہ سایا
koi badal or na saya
بکھر بال کمر میں پیٹی
bikhre baal kamar me peti
پانی نیچے سے لے کر آتا ہے
paani neeche sy ly kar ata hy