Khuddar Ount - Article No. 2060
خوددار اونٹ(آخری حصہ) - تحریر نمبر 2060
جو مائی کا لال بھی میرے جسم اور قد کاٹھ کو دیکھے گا،جان لے گا کہ میں بھی اپنی ماں کے بطن سے کل رات پیدا نہیں ہوا بلکہ تم سے بہت پہلے اس دنیا میں آیا ہوں
ہفتہ 11 ستمبر 2021
یہ سن کر اونٹ کو سخت غصہ آیا۔اس کے منہ سے کف جاری ہو گیا اور وہ بولا:منہ سنبھال کر بات کر اور میرے مقابل مت آ کیونکہ تو اونٹ کے مقابلے میں پدا سا ہے کہ اسے شکار کر سکے اور اگر تجھے ایسی ہی اُلٹی بات سوجھی ہے تو میں تیرے سر پر ایک لات رسید کروں گا اور تو ڈھیر ہو جائے گا۔
(جاری ہے)
بھیڑیا اونٹ کی باتیں سن کر خوف زدہ ہو گیا تھا لیکن ہمت کرکے بولا:بہت خوب بڑے میاں!مگر آخر بزرگی کا ثبوت کیا ہے۔بزرگی عقل سے ہے۔
اونٹ بولا:نہیں بزرگی قد کاٹھ سے ہے۔جب یہی طے کر لیا گیا کہ کسی امر میں دلیل اور منطق سے کام نہیں لیا جائے گا اور انصاف نہیں کیا جائے گا تو اس وقت بزرگی ،زور اور مکے کا نام ہوتا ہے لیکن پھر بھی مجھے نان کھانے پر اصرار نہیں۔میں بہرحال کسی کی دھونس میں نہیں آتا۔
لومڑی بولی:اب لڑائی جھگڑے سے باز آئیں۔میں اپنے حق سے دستبردار ہوتی ہوں لیکن اگر بزرگی عقل سے ہوتی ہے تو نان پر میرا حق ہے چونکہ میں سب سے زیادہ ہوش مند ہوں۔اب میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے جس سے حق دار کو اس کا حق مل جائے گا۔یہ کیسا رہے گا کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنی اپنی آپ بیتی بیان کرے اور جس کی آپ بیتی سب سے عمدہ ہو وہ نان کا حق دار قرار پائے؟
بھیڑیا بولا:مجھے اس سے اتفاق نہیں کیونکہ ہر شخص کی آپ بیتی اس کے اپنے زعم میں عمدہ اور پُرکشش ہوتی ہے۔ہر کوئی کچھ نہ کچھ خود پسند ہوتا ہے اور ممکن ہے میں اپنی آپ بیتی کو تمہاری آپ بیتی سے زیادہ عمدہ سمجھوں اور تم اس سے اتفاق نہ کرو اور ذوق کے فرق کی وجہ سے پھر سے اختلاف شروع ہو جائے۔بہتر یہی ہے کہ اونٹ کے قول پر عمل کریں اور کم عمری اور بزرگی کے احترام میں ہر کوئی اپنی اپنی تاریخ پیدائش بتائے اور جس کسی کی تاریخ پیدائش زیادہ پہلے کی ہو اور اس کی عمر زیادہ ہو وہ نان کا حق دار ٹھہرے۔
لومڑی بولی:تجویز تو عمدہ ہے۔
اونٹ نے بھی اس تجویز سے اتفاق کیا اور بولا:یا اللہ،تو شروع کریں۔پہلے اپنی تاریخ پیدائش کون بتائے گا“؟لومڑی نے جو مکاری میں مشہور ہے،تجویز پیش کی کہ سب سے پہلے بھیڑیا شروع کرے۔اس نے دل میں سوچا کہ اس میں کیا بُرائی ہے کہ جو کچھ بھیڑیا کہے میں اس سے زیادہ عمر کی بات کروں اور اونٹ کو بھی اپنی چکنی چپڑی باتوں سے فریب دوں اور بالآخر نان کی اکیلی حق دار ٹھہروں۔اونٹ نے اس سے اتفاق کیا کہ سب سے پہلے بھیڑیاں اپنی بات شروع کرے۔
تب بھیڑیا بولا:جیسا کہ میرے والد نے اپنی دعا کی کتاب کی جلد کے پیچھے لکھا ہے،میری ماں نے مجھے حضرت آدم کی خداوند کے ہاتھوں تخلیق سے سات روز پہلے جنم دیا۔
یہ سن کر حیرت سے اونٹ کا منہ تو کھلے کا کھلا رہ گیا مگر لومڑی نے بھیڑیے کی بات کو بہت آسان لیا اور کہا:ہاں ہاں ٹھیک کہا اس نے۔جب بھیڑیے کی ماں اسے جنم دے رہی تھی،میں نے شمع ہاتھ میں تھام رکھی تھی اور روشنی کا اہتمام کر رہی تھیں۔اس وقت میں دس سال کی تھی۔
اونٹ نے جب یہ باتیں سنیں تو اسے اندازہ ہو گیا کہ اس کے ساتھی جھوٹ کی راہ پر چل پڑے ہیں اور اب اس کے لئے کہنے کو کچھ نہیں رہا۔ یہ سوچ کر اونٹ نے اپنی گردن لمبی کی اور نان کی ٹکیا کو دانتوں سے پکڑ کر ایک لقمے کی طرح نگل گیا اور اسے کھانے کے بعد بولا:میں نے شروع ہی سے فیصلہ کیا تھا کہ میں یہ نان نہیں کھاؤں گا کیونکہ میری خوراک تو اصل میں گھاس ہے اور میں نے گمان کیا کہ چونکہ طے ہے کہ تم لوگ سچ بات کہو گے اور انصاف کو پیش نظر رکھو گے اس لئے میں چاہتا تھا کہ یہ نان اگر میرے مقدر میں ہوا بھی تو میں یہ تمہیں بخش دوں گا لیکن اب جب تم نے کام کی بنیاد مکاری پر رکھ دی اور معاملہ دگرگوں ہو گیا سو میں بھی ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ جو مائی کا لال بھی میرے جسم اور قد کاٹھ کو دیکھے گا،جان لے گا کہ میں بھی اپنی ماں کے بطن سے کل رات پیدا نہیں ہوا بلکہ تم سے بہت پہلے اس دنیا میں آیا ہوں اور اسے بہت دیکھا ہے اور جو چیز عیاں ہے اس کے بیان کی کیا ضرورت؟
Browse More Moral Stories
قیمتی نصیحت
Qeemti Naseehat
نیک دل شہزادہ
Naik Dil Shehzada
دوست ہو تو ایسا
Dost Ho Tu Aaisa
ماں کی ممتا
Maa Ki Mamta
ماہم کا خواب
Maham Ka Khawab
چنبیلی بیگم
Chanbeli Begum
Urdu Jokes
انسپیکٹر
inspector
ماں بیٹے سے
Maa bete se
استاد شاگرد سے
ustaad shagird se
ایک آدمی
Aik Admi
برٹش ایرویز
british airways
فون
Phone
Urdu Paheliyan
کالے کو جب تائو آئے دیکھو اس کا کام
kaly ko jab tawo aye dkho uska kam
صدیوں کا ہے اک گلزار
sadiyon ka hai ek gulzar
پانی سے ابھرا شیشے کا گولا
pani se bhara sheeshe ka gola
سیج سدا اک بہتی جائے
saij sada ek behti jaye
بنا جڑوں کے پودا پالا
bina jaro ke poda pala
اک لمبے کا سنو افسانہ
ek lambay ka suno afsana