Gunah Barbaad, Naiki Lazam - Article No. 2398

Gunah Barbaad, Naiki Lazam

گناہ برباد،نیکی لازم - تحریر نمبر 2398

میری ایک غلطی نے آپ کو ہیرو بنا دیا اور آپ نے اسے نیکی میں بدل دیا

پیر 21 نومبر 2022

جدون ادیب
عاصم ایک پریشان حال آدمی تھا۔اس کے چھ بچے تھے اور وہ کرائے کے مکان میں رہتا تھا۔وہ کسی نہ کسی طرح کرائے کا مکان حاصل تو کر لیتا،مگر کچھ ہی عرصے میں مالک مکان بچوں کی تعداد سے تنگ آ جاتا اور کسی نہ کسی بہانے سے عاصم کو مکان خالی کرانے کا نوٹس دے دیتا۔اس طرح عاصم ہر وقت اس کوشش میں مصروف رہتا کہ کسی طرح مالک مکان کو راضی رکھے اور ساتھ ہی نیا مکان بھی ڈھونڈ رہا ہوتا۔

ان دنوں بھی وہ اسی پریشانی کا شکار تھا۔مالک مکان اس کی پریشانی کو نہ سمجھ رہا تھا اور نہ اس کے ساتھ کوئی تعاون کرنے کو تیار تھا۔اس نے آخری مہلت دے رکھی تھی اور ہر دوسرے دن پوچھتا رہتا کہ کوئی مکان ملا؟عاصم اس سے تنگ آ چکا تھا۔وہ ایک پراپرٹی کمپنی کے کم پڑھے لکھے مالک کا ملازم تھا۔

(جاری ہے)

مالک کو جو کہنا ہوتا،وہ عاصم سے زبانی کہہ دیتا۔

عاصم اس کے زبانی نکات کو کمپیوٹر ٹائپ کرکے منیجر کے حوالے کر دیتا۔اس طرح اس کی نوکری چل رہی تھی اور تنخواہ بھی مناسب تھی،مگر اپنا مکان نہ ہونے کے باعث وہ مالی مشکلات میں گھِرا رہتا۔
عاصم اپنی پریشان سوچوں میں گم تھا کہ چپراسی نے آ کر بتایا کہ اسے بڑے صاحب نے بلایا ہے۔عاصم کاغذ قلم لے کر اس کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔صاحب کم پڑھے لکھے ہونے کے باوجود زبردست کاروباری صلاحیتیں رکھتے تھے۔
شہر میں ان کی کئی عمارتیں قائم کی تھیں اور اس کے سینکڑوں کرائے دار تھے۔عاصم جب اس کے پاس پہنچا تو وہ فون پر کسی سے بات چیت میں مصروف تھے۔عاصم اس کی بات ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔آخر بات ختم ہوئی عاصم کو دیکھ کر کہا:”ایک اشتہار لکھو،ہماری نئی بلڈنگ تیار ہے،اس کے لئے اچھے کرائے دار چاہییں!“
عاصم کا دل زور سے دھڑکا۔اس نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ وہ اپنی کمپنی کا کوئی مکان کرائے پر حاصل کر لے۔
کمپنی میں اس کی اہمیت بھی تھی،مگر دوسرے ہی لمحے اس کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا۔
صاحب بولے:”شرائط وہی پرانی لکھ دینا،یعنی ایک سال کا ایڈوانس اور کم بچوں والا خاندان۔“
عاصم نے ضروری باتیں نوٹ کیں۔جب وہ اشتہار کا مضمون ٹائپ کر رہا تھا تو اسے ایک خیال سوجھا۔اس مرتبہ ہمت کرکے اس نے اشتہار میں ایک تبدیلی کر دی۔حسبِ سابق منیجر نے فائل کو سرسری انداز میں دیکھا اور متعلقہ شعبے میں بھیج دیا۔

کرائے کے مکانوں کی بکنگ شروع ہوئی تو عاصم پوری تیاری کے ساتھ پہنچا اور بھرپور کاغذی کارروائی کرکے اپنی پسند کا فلیٹ کرائے پر حاصل کر لیا۔بکنگ کھلتے ہی لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہو گئی۔تھوڑی دیر بعد ٹیلی ویژن کے کچھ نمائندے بھی پہنچ گئے۔وہ سیٹھ صاحب سے ملنا چاہتے تھے،لیکن اتفاق سے وہ ملک سے باہر تھے۔تین دن بعد جب وہ دفتر پہنچے تو ان کی حیرت کا کافی سامان موجود تھا۔
ایک چینل کے نمائندے نے اثر رسوخ استعمال کرکے سیٹھ صاحب سے انٹرویو کے لئے وقت لے لیا تھا۔کئی تنظیموں نے ان کے اعزاز میں پروگرام رکھے تھے۔شہر کی ایک بڑی اور نمایاں سماجی تنظیم نے انھیں ایک ایوارڈ کے لئے نامزد کیا تھا۔
کمپنی کے تمام لوگ حیران تھے کہ سیٹھ صاحب راتوں رات شہر کی ایک معروف شخصیت بن گئے تھے۔ان سے بہت سارے لوگ ملنا چاہتے تھے،مگر انھوں نے سب سے پہلے عاصم کو بلایا۔

عاصم کو صاحب کا بلاوا ملا تو وہ سمجھ گیا کہ اس کی ملازمت کے ختم ہونے کا وقت آ گیا ہے،مگر اسے یہ تسلی تھی کہ اسے رہنے کے لئے ایک سال کے لئے مکان مل چکا ہے۔جسے ایک سال سے پہلے خالی کرانا آسان نہیں ہو گا۔عاصم مرے مرے قدموں سے صاحب کے کمرے میں پہنچا تو وہ بے چینی سے ٹہل رہے تھے۔عاصم خاموشی سے کھڑا ہو گیا۔انھوں نے عاصم کی طرف غور سے دیکھا اور کہا:”مجھے وہ سب بتاؤ،جو میں نہیں جانتا۔

عاصم نے ایک گہری سانس لی اور بولا:”سر!جب لوگوں کو پتا چلا کہ آپ نے زیادہ بچوں والے خاندان کو فلیٹ کرائے پر دینے کا اشتہار دیا ہے تو لوگوں نے آپ کے جذبہ ہمدردی سے متاثر ہو کر آپ کو ایک بڑے سماجی رہنما کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔اب آپ ایک مشہور سماجی شخصیت بن چکے ہیں۔تھوڑی دیر میں ایک ٹیلی ویژن کے لئے آپ کا انٹرویو ہے۔“
سیٹھ صاحب نے دونوں ہاتھ تشکر کے انداز میں اوپر اُٹھائے اور بولے:”میری بچپن سے خواہش تھی کہ اخبار میں میرا انٹرویو چھپے۔
میں نے اس خواہش کو اپنے اندر چھپا کر رکھا،اب اللہ تعالیٰ نے میری خواہش پوری کر دی ہے۔میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں۔آئندہ میری جتنی بلڈنگیں بنیں گی،سب بڑے خاندان والوں کو دیں گے۔“
عاصم حیران نظروں سے اپنے صاحب کو دیکھتا رہا،پھر سر جھکا کر بولا:”میری ایک غلطی نے آپ کو ہیرو بنا دیا اور آپ نے اسے نیکی میں بدل دیا۔“
”تم نے جو غلطی کی ہے،جی چاہتا ہے،تمہارے ہاتھ چوم لوں۔

بیگ صاحب نے جیسے ہی کہا،عاصم نے اپنے ہاتھ سمیٹ لیے۔سیٹھ صاحب عاصم کی طرف غور سے دیکھنے لگے،پھر نرم لہجے میں بولے:”تم نے ایسا کیوں کیا؟“
عاصم نے کچھ کہنا چاہا،مگر الفاظ گلے میں گھٹ گئے۔بے بسی کے احساس سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آخر رُندھے ہوئے لہجے میں بولا:”سر!میں کرائے کے مکان ڈھونڈ ڈھونڈ کر اور کرائے بھر بھر کے تھک چکا ہوں۔
میں نے یہ غلطی جان بوجھ کر کی ہے۔آپ کے اعتماد کو دھوکا دیا ہے۔“
سیٹھ صاحب نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بولے:”گھبراؤ مت،جو ہوا،سو ہوا،اب یہ راز ہم دونوں کے درمیان رہے گا اور اس کی ایک قیمت ہو گی۔“
”قیمت․․․․․کیسی قیمت!“عاصم نے گڑبڑا کر پوچھا۔
”تم نے جو فلیٹ کرائے پر حاصل کیا ہے،وہ آج سے تمہارا ہوا۔یہ تمہارا انعام ہے اور راز کی قیمت بھی․․․“
بیگ صاحب کچھ اور بھی کہہ رہے تھے،مگر عاصم نہ سن سکا۔اسے ہر چیز ایک دائرے میں گھومتی محسوس ہوئی اور پھر وہ لہرا کر دھڑام سے گر پڑا۔

Browse More Moral Stories