Koshish - Article No. 1053

Koshish

کوشش - تحریر نمبر 1053

وہ اپنے اَن پڑھ خاندان میں ایسے نظر آتی جیسے کوئلوں میں چمکتا ہوا ہیرا،اب وہ بڑے شوق اور لگن سے پڑھتی ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :”ان کی (یتیموں کی)اصلاح بہتر ہے،یتیموں کی آزمائش کرتے رہو۔

جمعرات 7 دسمبر 2017

ماسٹر محمد اسحاق:
میں نے جب اسے پہلی بار ا اپنے گھر دیکھا تو اس کی عمر تقریباً آٹھ یا نو سال کے درمیان تھی وہ گہرے سانولے رنگ کی تھی۔مجھے اس کے چہرے میں کسی قسم کی کشش اور خوبصورتی کی رمق ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آئی اس کی بیوہ ماں ہمارے گھر کی صفائی ستھرائی کے لیے کام پر رکھی گئی تھی وہ اس کے پیچھے پیچھے ہمارے گھر آتی اور اپنی نچلانہ بیٹھنے والی طبیعت کی وجہ سے گھر کے ہر فرد سے جھڑکیاں کھاتی،آمنہ یہ نہ کرو آمنہ وہ نہ کرو،گھر کے بچوں کو پہلے چھیڑتی جب وہ مارتے تو آگے لگ کے پورے گھر میں دوڑتی کہ فلاں بچہ مجھے مارتا ہے۔
میں یہ سمجھتی کہ یتیم سمجھ کر ہر کوئی اس سے زیادتی کرتا ہے،میں نے اس کی والدہ سے کہا کہ آپ اس کو گورنمنٹ اسکول میں داخل کراؤ اور اس کو قرآن پاک پڑھنے میرے پاس بھیجا کرو۔

(جاری ہے)

بہر حال کافی دفعہ کہنے کی وجہ سے ا س کی ماں نے اسے اسکول داخل کروادیا اور میرے پاس قرآن پڑھنے کے لیے بھی بھیجنے لگی وہ نورانی قاعدے کا ایک ایک لفظ بڑی مشکل سے یاد کرتی اور میری برداشت کا امتحان لیتی۔

جتنا وہ تنگ کرتی گھر کے سب افراد کا خیال تھا کہ میں بہت جلد اس کو پڑھانا چھوڑ دوں گی۔شروع شروع میں وہ چھٹیاں بھی بہت کرتی ۔اس طرح کرتے کرتے وہ عمّ پارے پر آگئی۔قرأت کے اصول و ضوابط کو بہت الٹ پلٹ کرنے اور نہایت کند ذہن ہونے کے باوجود بھی میں اس کو ایک آیت یاد کرواتی،ان دنوں مجھے حقیقتاً یہ بات سمجھ آئی کہ جاہلوں کی جہالت کے برداشت کرنے کو عقل کی زکوٰة کیوں کہا گیا ہے بہر حال میں اس کو برداشت کرتے ہوئے عقل کی زکوٰة دیتی چلی گئی اور وہ عمّ پارے کے تین سے چار آیات سے ہوتے ہوئے آدھا صفحہ یاد کرنے لگی اب جب وہ اونچی آواز میں تجوید و قرأت کے اصولوں کے مطابق اپنا سبق دہراتی تو اس کی آواز میں ایسی لے ہوتی کہ گھر کاہر فرد حیران رہ گیا کہ یہ کتنی روانی کے ساتھ قرآن پڑھتی ہے۔
یہ میری ساس سسر اور شوہر کا قرآن سے پہلی دفعہ تعارف ہوا کہ صحیح قرآ ن پڑھنے کا طریقہ یہی ہے اور وہ بہت متاثر بھی نظر آئے اب چوں کہ اس کی زبان لفظوں کو جوڑ کر پڑھنے میں رواں ہوگئی تھی تو میں نے آمنہ کی والدہ سلمٰی سے کہا کہ اب اس کو شام کو بستہ دے کر میرے پاس بھیجا کرو تاکہ میں اس کو اردو میں چلادوں اور یہ اپنی زبان سمجھ سکے اورخط وغیرہ اور حساب کتاب سیکھ لے ان سب چیزوں کے لیے سلمٰی کو قائل کرنا یہ ایک علیحدہ داستان ہے کیوں کہ یہ لوگ نسل در نسل لوگوں کی غلامی کی زندگی گزارتے آرہے تھے وہ وقت کی روٹی کا حصول بھی ان کے لیے بہت مشکل تھا۔
جہالت اور اجڈ پن میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا،میں نے سلمٰی کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا اور کہا کہ کیا تم نسل درنسل لوگوں کے گھروں میں کام او ر غلامی ہی کرتے رہو گے تم پڑھی نہیں تو اس لیے شوہر کی وفات کے بعد ان مسائل کا سامنا کررہی ہو اور تمہاری بڑی کنواری بیٹی بھی غلامی کرنے پر مجبور ہے اور دس اور بارہ سال کے بیٹے بھی غلامی کرنے پر مجبورہیں اور یہ آمنہ تو جسمانی طورپر بھی بہت کمزور ہے یہ تولوگوں کے گھر میں کام بھی نہیں کرسکتی لہٰذا اس کو کچھ نہ کچھ پڑھاؤ تاکہ یہ بڑی ہوکر اپنا بوجھ اٹھاسکے بہر حال اب بات سلمٰی کی سمجھ میں آچکی تھی،تب تک آمنہ برائے نام اوّل جماعت میں پہنچ چکی تھی لیکن ابھی تک اس کو الف ب نہیں آتی تھی شام وہ بستہ لے کر آجاتی اور دو تین گھنٹوں میں کچھ نہ کچھ الف ب لکھتی اور ابتدائی قاعدے پڑھتی اور پھر اوّل جماعت کی اردو کی کتاب میں پہنچ گئی ٹوٹی پھوٹی اردو پڑھنا کوئی مسئلہ نہ تھا اصل مسئلہ لکھائی اور زبانی لکھنے کا تھا اس کا مسئلہ یہی تھا کہ کندذہن ہونے کی وجہ سے وہ وقت زیادہ لیتی اور کام تھوڑا سیکھتی تھی۔
میرا ایک گھنٹہ صبح اور دو تین گھنٹے عصر کے وقت اس پر صرف ہوتے۔میری اپنی ذمہ داریاں بھی تھیں۔میرے چاربچے انگلش ٹو انگلش اسکول میں پڑھتے تھے ان کو ٹیوٹر اور قرآن پاک پڑھانے کا فریضہ بھی میں خود ہی انجام دیتی تھی لہٰذا میں نے آمنہ سے کہا کہ آپ کو میرے ساتھ کچھ نہ کچھ صبح اور شام پڑھائی کے ساتھ کچھ کام بھی کروانا پڑے گا۔اس طرح ریں ریں کرتے اس کی زندگی کی گاڑی آگے بڑھنے لگی اور وہ سوم جماعت میں پہنچ چکی تھی اردو لکھنے اور پڑھنے پر عبور حاصل کرچکی تھی اس کی زندگی میں بہت مشکلات تھیں صبح بہت دور سے وہ پانچ بجے اٹھ کر قرآن پڑھنے اور میرے ساتھ کام کروا کر پیدل واپس جاتی اور پھر تیار ہوکر اسکول کی تیاری پکڑتی اور اسکول بھی گھر سے بہت دور تھا اور اسکول سے آتے ہی کھانا کھائے بغیر وہ میرے گھر میرے ٹیوشن کے لیے آجاتی اور مغرب وقت چھٹی کرکے گھر واپس جاتی اور جاکر سوجاتی ۔
آمنہ کی زندگی آہستہ آہستہ ڈھب پر آتی جارہی تھی سوم جماعت میں اس کا قرآن پاک مکمل ہوگیا اور ساتھ ہی اس نے انگریزی شروع کرلی اب انگریزی میں بھی اس کو چلانا ایک مشکل مرحلہ تھا،نرسری سے لے کر تمام انگریزی کی کتابیں اس کو ایک ایک کرکے پڑھائیں اور انگریزی میں بھی وہ آخر کار چل پڑی وہ علیحدہ بات ہے کہ اس کی رفتار آج بھی وہی ہے آہستہ آہستہ وہ صبح کے وقت قرآن پاک کی دہرائی کرتی رہی،اب آمنہ پانچویں جماعت کی گورنمنٹ اسکول کی طالبہ ہے لیکن ابھی تک اس کو ریاضی میں کوئی شدبد نہیں اب میں اس کو گنتی پہاڑے اور دوسری جماعت کا ریاضی کروارہی ہوں ،اب آمنہ صاف ستھری بھی رہتی ہیں اور اس کی زندگی مکمل حرکت میں ہے اور حرکت میں ہی برکت ہیں ۔
جہالت سے روشنی اور پانچویں تک کا سفر طے کرنے میں آمنہ کو بہت کٹھن مراحل طے کرنے پڑے۔کم اور غیر متوازن خوراک اور کام کی زیادتی او ر پیدل چلنے کی مشقت کی وجہ سے وہ مسلسل بیماررہنے کے باوجود اس کو پڑھنا پڑتا،اس لئے نہیں کہ اس کو پڑھنے لکھنے کا شوق تھا بلکہ اس کی والدہ کو یہ بات سمجھ آگئی تھی یہ اتنی کمزور ہونے کی وجہ سے لوگوں کے گھروں میں کام نہیں کرسکتی اس لیے اس کو پڑھائی میں مصروف رکھا جائے بس شروع میں میری بھرپور توجہ،شفقت اور مناسب سختی نے اس کو پڑھنے پر مجبور کردیا لیکن جیسے جیسے اس کو خاندان میں لوگوں سے اسکول کے استادوں سے عزت ملنی شروع ہوئی تو اسے بھی علم کی روشمی حقیقی معنوں میں نظر آنا شروع ہوئی کیوں کہ وہ اپنے اَن پڑھ خاندان میں ایسے نظر آتی جیسے کوئلوں میں چمکتا ہوا ہیرا،اب وہ بڑے شوق اور لگن سے پڑھتی ہے،ورنہ شروع میں اس نے بہت رسّے تڑوانے کی کوشش کی،یہ صرف ایک فرد کو مفید شہری بنانے کی کوشش کی تھی جس کے لیے مجھے کئی سال لگانے پڑے اور اپنے بچوں کی تربیت سے کچھ وقت نکال کردینا پڑا لیکن درحقیقت یہ ایک پورے خاندان کی تعلیم ہے اب سب لوگ اور اس کے خاندان والے کہتے ہیں کہ آمنہ بہت سمجھدار ہوگئی ہے یہی سب لوگ پہلے اسے نفرت سے دیکھتے تھے کہ اس کی حرکتیں ہمیں پسند نہیں یہ سچ ہے کہ تنقید کرنا بہت آسان ہے لیکن اس کو صحیح کرنا اس سے بھی مشکل ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے :”ان کی (یتیموں کی)اصلاح بہتر ہے،یتیموں کی آزمائش کرتے رہو۔

Browse More Moral Stories