Munna Mera Dost - Article No. 1774

Munna Mera Dost

مُنّا میرا دوست - تحریر نمبر 1774

جب سے جنگل کٹنے شروع ہوئے ہماری تو مصیبت ہی ہو گئی یہ جنگل میں شکار نہیں ملتا تو شیر اور بھڑیے گاؤں میں گھس آتے ہیں جو ملا اسے ہی مار کر کھا جاتے ہیں

منگل 4 اگست 2020

ہماء بلوچ
جب سے جنگل کٹنے شروع ہوئے ہماری تو مصیبت ہی ہو گئی یہ جنگل میں شکار نہیں ملتا تو شیر اور بھڑیے گاؤں میں گھس آتے ہیں جو ملا اسے ہی مار کر کھا جاتے ہیں،چاہے بچھڑا ملے،بھیڑ،بکری یا کتا بلی۔ہمارے گاؤں میں پچھلے کئی دنوں میں بہت ساری اس طرح کی وار دات ہو چکی ہے۔رات میں چپکے سے شیر آیا اور ایک گائے کو مار کر کھا گیا ۔
دوسرے دن ہمارے پڑوسی کی گائے کے بچھڑے کو کھا گیا۔بھیڑیے نے ایک رات ہمارے گاؤں کے سر پنج کے کتے تامی کو ہی کھا ڈالا۔گاؤں والوں کے دلوں میں ڈر بیٹھ گیا کہ شیر اور بھیڑیے کسی دن کہیں آدمی کو نہ کھا لیں اور آدم خوربن کر بڑا نقصان پہنچائیں۔گاؤں کے لوگ اس مسئلے کو لے کر چوہدری کے گھر پہنچے وہاں پہنچ کر سب اپنی اپنی ہی بولی بول رہے تھے کوئی کہہ رہا تھا:”اس سال بارش کم ہوئی تمام تالاب سوکھ گئے۔

(جاری ہے)

“کوئی کہہ رہا تھا:”جنگل میں اب درخت نہیں بچے ہیں ہم پکانے کے لئے لکڑیاں کہاں سے کاٹ کر لائیں؟“وغیرہ۔
چوہدری نے تبھی بیچ میں کہا کہ:”پانی کی تلاش میں ہی شیر اور بھیڑیے گاؤں میں آرہے ہیں اور جنگل میں درختوں کی لگا تار کٹائی ہونے سے چھوٹے چھوٹے جنگلی جانور گاؤں کی طرف آکر اپنے پیٹ کی آگ بجھا رہے ہیں۔شیر اور بھیڑیے کو شکار نہ ملنے کی وجہ سے وہ بھی گاؤں کی طرف رُخ کرتے ہیں ایسے حادثات کے ذمہ دار تو ہم ہی ہیں۔

راحیل دُکھی لہجے میں کہنے لگا:”شیر نے تو میری گائے کی بچھڑی کو ہی کھا گیا ہے چوہدری صاحب کوئی علاج سو چیے۔“
احمد خان نے کہا:”رشید لوہار سے ایک جال بنوا لیتے ہیں اور شیر اور بھیڑیے کو اس میں پھنسا لیتے ہیں تاکہ ہم سکھ کی سانس لے سکیں۔“
احمد خان کی بات سب کو ٹھیک لگی۔رشید لوہار نے کہا کہ:”ایسا جال بناؤں گا کہ شیر ہو یا بھیڑیا،پیر رکھتے ہی پھنس جائیں گئے۔
“لوگوں نے کہا کہ یہ بھی بھلے کر لیا جائے کہ شیر اور بھیڑیے کو پھنسانے کے لئے کیا کیا جائے؟کوئی بھیڑ بکری جال کے پاس باندھنی پڑے گی تب ہی تو شیر یا بھیڑیا وہاں آئیں گے۔
”بکری میں دے دوں گا۔“عبدالہادی یعنی میرے مالک نے کہا ۔
میں کھوٹنے سے بندھی یہ سب سن رہی تھی۔میرے تو پیروں کے نیچے کی زمین کھسک گئی۔میرا سر چکرانے لگا۔
مجھے چوہدری کے اوپر غصہ آنے لگا۔تامی نے اپنی جان دے کر میری جان بچائی تھی۔وہ زور زور سے بھونکتا رہا۔کسی نے دھیان ہی نہیں دیا آخر کار بھیڑیے نے اسی کو اپنا شکار بنا لیا۔مُنا بھی چارپائی پر بیٹھا لوگوں کی باتیں سُن رہا تھا۔وہ بول پڑا:”میں اپنی بکری نہیں دوں گا۔گاؤں میں کئی لوگوں کے یہاں کئی کئی بکریاں ہیں۔ہم کیوں اپنی بکری دیں؟“․․․․اُسے اس طرح بیچ میں بولتا دیکھ کر احمد خان نے ڈانٹ کر کہا:”بچے اس طرح بڑوں کے بیچ میں نہیں بولا کرتے۔

کئی لوگوں نے ایک ساتھ مڑ کر مُنا کی طرف دیکھا وہ سب کو گھور رہا تھا۔مجھے بہت اچھا لگا چلو کوئی تو ہے جو میرے بارے میں سوچتا ہے۔میری جان میں جان آئی۔مُنا ضدی ہے،وہ میرے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ہمارے خاندان میں صرف تین جانور ہیں۔میری ماں ،میری بہن چھوٹی اور میں․․․ماں کو جال کے پاس باندھا جائے گا تو شیر یا بھیڑیا کھا جائے گا۔
میری بہن چھوٹی ابھی بہت چھوٹی تھی وہ چارا کم کھاتی تھی۔روز وہ ماں کا دودھ پیتی تھی۔ماں کے بغیر وہ پل بھر نہیں رہے سکتی تھی اور دودھ کے بغیر تو اس کا زندہ رہنا ہی مشکل ہو جائے گا۔
اب صرف میں بچی تھی۔رشید لوہار نے لوہے کا جال بنا دیا،گاؤں کے کنارے والے راستے پر باندھنے کے لئے مجھے لے کر گئے۔مُنا نے بہت ہائے تو کی بہت رویا،گڑگڑایا لیکن اس کی بات کسی نے نہ سنی مجھے ایک کھوٹنے سے باندھ دیا گیا۔میرے سامنے ہری ہری گھاس ڈال دی گئی ایک بالٹی میں میرے لئے پانی بھی رکھ دیا گیا۔میں ڈری سہمی تھی،کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ مجھے اس جگہ کیوں باندھا گیا ہے میں نے چارا تو نہیں کھا یا ہاں ! تھوڑا سا پانی ضرور پیا۔

Browse More Moral Stories