Reech Ka Shikar - Article No. 887

ریچھ کا شکار - تحریر نمبر 887
کاغان کی خوب صورت وادی مغربی پاکستان کے شمال میں واقع ہے۔ اس کا موسم کشمیر کی طرح نہایت خوشگوار ہوتا ہے۔ یہ علاقے چاروں طرف سے بلند پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے، جن میں صاف شفاف پانی کی ندیاں بہتی ہیں۔
ہفتہ 23 جنوری 2016
ایک روز دونوں بھائی سیر کو نکلے۔ چوں کہ اس علاقے میں جنگلی جانوروں کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے، اس لیے باہر جاتے وقت احسن اپنی شکاری بندوق ہمیشہ ساتھ لے جاتا اور آج بھی بندوق اس کے پاس ہی تھی۔دونوں بھائی اطمینان سے باتیں کرتے چلے جارہے تھے کہ احسن نے ضیا کا بازو پکڑ کر اسے ایک دم ٹھہرادیا۔
(جاری ہے)
کیا ہے؟ ضیا نے گھبرا کر پوچھا اور پھر احسن کے منہ کی طرف دیکھنے لگا۔
اب اسے گھر لے چلیں؟ ضیا نے کہا۔ ہاں ابا جان کو دکھائیں گے۔ اس نے جواب دیا۔
لیکن مجھے تو اس پر رحم آتا ہے تم نے اس بے چارے کو مارا کیوں۔ ضیا نے کہا۔
”کیوں مارا؟ یہ موذی جانور ہے۔ نہ مارتے تو یہ ہمیں مار ڈالتا، احسن نے مردہ ریچھ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور پھر ضیا کی طرف دیکھنے لگا لیکن ضیا نے اس کی بات نہ سنی کیوں کہ اس کی توجہ کسی اور طرف چلی گئی تھی۔ وہ گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اس کے کانوں میں کچھ فاصلے پر سے خوفناک قسم کی آواز آرہی تھی اور اب اس آواز کو دونوں بھائی سن رہے تھے۔ یہ آواز لمحہ بہ لمحہ نزدیک آنے لگی، اچانک احسن نے گھبرا کر ضیا کو دونوں کندھوں سے پکڑ لیا۔
ریچھ! ریچھ آگیا۔
گھبراہٹ میں یہ الفاظ اس کے منہ سے نکلے اور سامنے ایک بہت بڑا سیاہ ریچھ نمودار ہوا۔ وہ اپنے خوفناک سر کو زمین کی طرف جھکائے بڑے خطرناک انداز سے آرہا تھا۔
دونوں بھائیوں پر اس قدر دہشت چھاگئی کہ انہیں کچھ سوجھتا ہی نہ تھا۔ بندوق احسن کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن اسے اندازہ تھا کہ گولی بھرنے اور نشانہ باندھنے سے پہلے ہی ریچھ اسے آلے گا۔ وہ بندوق زمین پر پھینک قریب کے ایک درخت پرچڑھ گیا اور ضیا کو بھی فوراً دوسرے درخت پر چڑھنے کی ہدایت کی۔
ریچھ نہایت تیزی سے ادھر ادھر زمین کو سونگھتا ہوا اپنے بچے کے قریب آیا اور اسے چاروں طرف سے ہلا جلا کر سونگھنے لگا۔ ریچھ سونگھ کر معلوم کرلیتا ہے کہ لاش میں جان ہے یا نہیں جب اسے تسلی ہوگئی کہ بچہ مرچکا ہے تو اس نے ایک دردناک چیخ ماری جس سے سارا جنگل ہل گیا اور دونوں بھائیوں کے دل بھی دہل گئے۔ اب وہ لاش کو چھوڑ کر ان دونوں کی طرف لپکا۔ غصے کے مارے اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔پہلے وہ اس درخت کے قریب آیا جس پر خوفزدہ احسن بیٹھا ہوا تھا۔ ریچھ نے اپنا بھاری سر اوپر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور پھر اپنے پنجے درخت پر جما کر اس پر چڑھنا شروع کردیا۔ ضیا دور ایک درخت پر بیٹھا یہ نظارہ دیکھ رہا تھا اور خوف سے لرز رہا تھا۔
ابھی ریچھ احسن تک پہنچا نہ تھا کہ احسن چھلانگ لگا کر اسی درخت کے ساتھ والی شاخ پر کود گیا۔ ریچھ دوسری شاخ تک نہ جاسکتا تھا۔ اس لیے وہ اب نیچے اتر آیا تاکہ نیچے سے دوسری شاخ کی طرف جاسکے۔اسی دوران میں ضیا نے اپنے بھائی کی جان بچانے کے لیے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال دیا۔ اس نے درخت سے نیچے اتر کر زمین پر پڑی ہوئی بندوق اٹھائی اور گولی بھر کر ریچھ پر نشانہ لگایا۔ ریچھ جو ابھی درخت کے تنے پر ہی چڑھنے کی کوشش کررہا تھا زخمی ہو کر ایک دم مڑا اور احسن کو چھوڑ کر ضیا کی طرف دوڑا جو اب بندوق پھینک کر دوبارہ در خت پر چڑھ رہا تھا۔ دونوں کے درمیان بہت کم فاصلہ رہ گیا تھا۔ ریچھ نے اپنا اگلا پنجہ اسے مارا جس سے وہ زخمی ہونے سے تو بچ گیا لیکن اس کی لٹکتی ہوئی قمیض کے ٹکڑے علیحدہ ہو کر ریچھ کے پنجے میں رہ گئے اور ریچھ پھسلتا ہوا زمین پر آگیا۔ احسن نے دوسرے درخت پر سے بھائی کو آواز دی کہ اور اوپر چڑھ جائے کیوں کہ ریچھ دوبارہ درخت پر چڑھ رہا تھا۔
اب جب احسن کو ضیا کی جان خطرے میں نظر آئی تو وہ درخت پر سے اترا اور ایک گولی ریچھ پر چلادی۔ ریچھ جو ضیا سے اب چند فٹ کے فاصلے پر تھا، گولی کھاتے ہی دھڑام سے زمین پر آگرا۔ اس دوسری گولی کا زخم اتنا کاری ثابت ہوا کہ وہ گرتے ہی ٹھنڈا ہوگیا۔
ضیا نے جو درخت کی بہت اونچی شاخ پر بیٹھا تھا، جب ریچھ کو اس طرح زمین پر گرتے دیکھا تو اس نے خیال کیا کہ شاید ریچھ کو گولی نہیں لگی بلکہ اس نے درخت پر سے احسن پر چھلانگ لگا دی ہے اور اب وہ احسن کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔یہ خیال آتے ہی وہ بھائی کے غم میں اپنے حواس کھو بیٹھا اور غش کھا کر درخت سے نیچے گر پڑا لیکن خوش قسمتی سے وہ مردہ ریچھ کے اوپر گرا جس کے بدن کی کھال اور بڑے بڑے بالوں نے اس کے لے گدیلے کا کام دیا، جب اسے ہوش آیا تو ریچھ کو مردہ اور بھائی کو زندہ دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی اور پھر دونوں بھائی ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔
اب ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ دونوں ریچھ اور اس کے بچے کو گھسیٹتے ہوئے گھر لے گئے اور جب دونوں بھائیوں نے سب واقعات گھر والوں کو سنائے تو وہاں ان کی بہادری پرحیران رہ گئے اور دونوں بھائیوں کی اس محبت کی یادگار کے طور پر ریچھ اور اس کے بچے کی کھال اتروا کر انہوں نے اپنے کمرے کی دیوار پر لٹکادی۔
Browse More Moral Stories

غرور کا انجام
Ghuroor Ka Anjam

چور کی سزا
Chor Ki Saza

ایک حیرت انگیز مخلوق
Aik Herat Angaiz Makhlooq

فرضی دعوت
Farzi Dawat

گلہری
Gulehri

جب ننھا سا تھا
Jab Main Nannha Sa Tha
Urdu Jokes
صحیح اندازہ
sahih andaza
شوقیہ گلوکار
shoqia gulukar
فلسفی
Falsfi
شوہر بیگم سے
shohar begum se
نوجوان حسین
Nojawan Haseen
درخواست
Darkhwast
Urdu Paheliyan
وہ رہتی ہے گھر میں اکیلی کھڑی
wo rehti hai ghar me akeli khadi
سرکوتھا دھرتی چھپائے
sar ko tha dharti chupaye
ایک استاد ایسا کہلائے
ek ustad aisa kehlaye
اک چھت کا ہے ایسا سایا
ek chhat ka hai aisa saya
ایک ناری نے آفت ڈھائی
ek naari ny aafat dhai
دن کو اس کا کام نہیں ہے
din ko uska kaam nahi hai