پتا تو چلے ٹرائل میں کیا طریقہ کار اپنایا گیا سپریم کورٹ کا فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیخلاف اپیل پر ریمارکس

رکنی بنچ کی تشکیل کے لیے معاملہ دوبارہ ججز کمیٹی کو بھیجا جائے، وکیل درخواست جسٹس جواد ایس خواجہ کا بینچ پر اعتراض

بدھ 24 اپریل 2024 14:16

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 اپریل2024ء) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس شاہد وحید نے کہا ہے کہ ہمیں پتا تو چلے ٹرائل میں کیا طریقہ کار اپنایا گیا ہی جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے بتایا کہ عید پر 20 ملزمان رہا ہو کر گھروں کو جا چکے ہیں، متفرق درخواست کے ذریعے رہائی پانے والوں کی تفصیل جمع کرائی ہے۔جسٹس میاں محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ رہا ہونے والے ملزمان کے خلاف اب کوئی کیس نہیں ہی اعتزاز احسن نے اپنی نشست پر کھڑے ہو کر جواب دیا کہ ان ملزمان کو سزا یافتہ کر کے گھر بھیج دیا گیا ہے، ایک بچے کو ٹرائل کیے بغیر سزا یافتہ کیا گیا وہ اب چھپتا پھر رہا ہے، یہ جو کچھ بھی ہوا ہے بڑا بے ترتیب سا ہوا ہے، اٹارنی جنرل کی جو پرفیکشن ہوتی ہے وہ اس کیس میں نظر نہیں آئی۔

(جاری ہے)

جسٹس امین الدین نے دریافت کیا کہ آپ جس کی بات کر رہے ہیں وہ اٹارنی جنرل کی جمع کرائی فہرست میں ہی اعتزاز احسن نے بتایا کہ وہ اس فہرست میں شامل ہے۔بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کے بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔درخواستگزار جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ 9 رکنی بنچ کی تشکیل کے لیے معاملہ دوبارہ ججز کمیٹی کو بھیجا جائے۔

اس موقع پر اعتزاز احسن اور دیگر وکلا نے عدالت سے فیصلے ریکارڈ پر لانے کی استدعا کردی، وکلا نے مقف اپنایا کہ 20 ملزمان کی حد تک جو فیصلے سنائے گئے وہ ریکارڈ پر لائے جائیںعدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم ان سے فیصلوں کی نقول مانگ لیتے ہیں، جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ ہمیں پتہ تو چلے ٹرائل میں کیا طریقہ کار اپنایا گیا بعد ازاں سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس کے فیصلوں کی نقول طلب کر لیں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں