سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سزائوں کے خلاف اپیلوں پر سماعت ملتوی

پیر 22 اپریل 2024 23:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 اپریل2024ء) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سزائوں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل منگل تک ملتوی کر دی ۔پیر کے روز ڈویژن بنچ نے اپیلوں پر سماعت کی تو بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے سلمان صفدر و دیگر عدالت پیش ہوئے جبکہ ایف آئی اے پراسیکیوشن ٹیم میں حامد علی شاہ ، ذوالفقار نقوی ، نعیم اقبال و دیگر عدالت پیش ہوئے ، عدالتی حکم پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل بھی عدالت پیش ہوئے ، کمرہ عدالت میں ملزمان کے خاندانی افراد سمیت پارٹی قیادت اور وکلاءکی بڑی تعداد موجود تھی ۔

(جاری ہے)

سپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے اپنے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سائفر کی تعریف کر دیں کہ سائفر ہوتا کیا ہے ؟ حامد علی شاہ نے کہا کہ جی میں ا سی سے شروع کروں گا ، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ سائفر خفیہ دستاویز تھا یا ہر سائفر ہوتا ہے ؟ حامد علی شاہ نے کہا کہ قانون کے مطابق ہر کوڈڈ دستاویز سیکرٹ ڈاکومنٹ ہوتا ہے ، 7 مارچ کو ای میل کے ذریعے وزارت خارجہ کو سائفر موصول ہوتا ہے ، وزارتِ خارجہ کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام پر نمبر لگایا جاتا ہے ، قانون کے مطابق وہ دستاویزات جو ملک میں خفیہ طور پر بھیجے جاتے ہوں وہ سیکریٹ ہوتے ہیں ، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے سیکرٹ لینگویج کا کتابچہ عدالت میں پیش کر دیا ، چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ سلمان صاحب آپ خوش قسمت ہیں آپ نے یہ کتاب دیکھی ہے ، عدالت نے سپیشل پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ یہ کلاسیفائیڈ تو نہیں ہے ؟ سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس کتاب پر نمبر لگا ہوا ہے ڈپٹی اٹارنی جنرل کے نام پر جاری ہوئی ہے ، یہ کتاب مخصوص ہاتھوں میں ہی جا سکتی ہے ، یہ بک جس شخص کے نام ایشو ہوتی ہے اس نے ہر چھ ماہ بعد بتانا ہوتا ہے کہ اس کے پاس ہی ہے ، بڑا متبرک ڈاکومنٹ ہے اس کی کاپی سلمان صاحب کے پاس تھی انہوں نے دلائل بھی دئیے ، ایک کوڈڈ فارم ، فرنچ کا لفظ ہے انکلئیر اور ایک قسم لٹرل ٹیکسٹ ہے ، کوڈڈ فارم سے انگریزی زبان میں لانا انکلئیر ہے پھر پیراگراف میں لانے کو لٹرل ٹیکسٹ ہے ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا کوڈڈ سائفر میسج کسی اسٹیج پرانٹرسیپٹ تو نہیں ہوا ؟ سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ جی کوڈڈ سائفر کسی اسٹیج پرانٹرسیپٹ نہیں ہوا ، سائفر کی سافٹ پرنسپل کاپی آج بھی وزارت خارجہ میں موجود ہو گی ، ای میل کے ذریعے آنے والی سافٹ پرنسپل کاپی اپنے پاس محفوظ رکھنے کے بعد ضائع کردی جاتی ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں خصوصی طور پر علم نہیں کہ سائفر کیا ہوتا ہے ، آپ نے بتانا ہے ، پراسیکیوٹر نے کہا کہ سائفر کا متن بھی معلوم ہو جائے تو ا س کے کوڈ توڑے جا سکتے ہیں ، سائفر کی تین فارمز ہوتی ہیں ، کوڈڈ ، انکلیئر اور تیسرا لٹرل ، لٹرل کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی طور پر جو کہا گیا وہ بتایا گیا ہے ، صرف سائفر نہیں بلکہ ا س کا متن بھی محفوظ رکھا جانا ہوتا ہے ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا سائفر کو کسی نے انٹرسیپٹ کیا ؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ کوڈڈ سائفر کسی سطح پر انٹرسیپٹ نہیں ہوا ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ سائفر اکاونٹیبل ڈاکومنٹ ہے ؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کتاب کے اندر سے پڑھ کر بتائیں سائفر کو اکاونٹیبل ڈاکومنٹ کیسے کہیں گے ؟ چیپٹر آٹھ میں لکھا ہوا ہے ایک دفعہ سے انٹرسیپٹ نہیں ہو گا بلکہ بار بار کرے تو تب ہی معلوم نہیں ہو سکے گا ، کیا یہ کتاب ٹرائل کورٹ کے سامنے تھی ؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ دلائل میں تھی لیکن کورٹ کو نہیں دی تھی ، کسی غیر مجاز فرد کے پاس یہ ڈاکومنٹ بھی نہیں جا سکتا ، کیا اٹارنی جنرل نے سرٹیفیکیٹ دیا ہے ؟ ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ یہ صرف سائفر نہیں بلکہ سارے آفیشل سیکریٹ ریکارڈ پر آتا ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ میرے ٹیکس ریٹرن پبلک ڈاکومنٹ نہیں ہیں صرف ایف بی آر کے ریکارڈ کے لئے ہیں ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ٹرائل جج نے کہا ہے کہ انہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ قانون ہے ؟ یا ہدایات ہیں ؟ پراسکیوٹر نے کہا کہ یہ سیکرٹریٹ کی ہدایات ہیں ، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بتا رہے ہیں سائفر کو گریڈ کیسے کیا جا سکتا ہے یہ بھی بتانا ہے قانون کی خلاف ورزی کہاں ہوئی ؟ جب سائفر آجاتا ہے تو اسے کلاسیفائیڈ کون کرتا ہے ؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ سائفر وزرات خارجہ کا متعلقہ سیکشن کلاسیفائیڈ کرتا ہے ، جو موضوع آپ کے سامنے پیش کروں گا اس کے متعلق گواہوں پر دلائل بھی ساتھ دوں گا ، ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے سائفر آفیسر کے بیان کو پڑھ کر سنایا اور کہا کہ یہ سائفر گریڈ ٹو کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ ہے ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اس کےکانٹنٹ کے بارے میں کسی گواہ نے کچھ کہا ؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس کے حوالے سے خاص طور پر کسی نے نہیں کہا ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سائفر کاپی تفتیشی افسر کو بھی فراہم نہیں کر سکتے ؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اس ڈاکومنٹ کو سیکرٹ رکھنا ہے ایک چیز ہے ، عدالت کو دکھانے کا تو میکنزم ہے کیا پراسیکیوشن سزائے موت مانگ رہی تھی ؟ پراسیکیوشن نے اس کے خلاف اپیل دائر نہیں کی ، وہاں بھی اس کا متن دکھانا مناسب نہیں سمجھا گیا ؟ وہاں قانون میں لکھا ہوا ہے آپ عدالت کو خالی کرا سکتے ہیں ، پورا کیس اس ڈاکومنٹ کے اردگرد کھڑا ہے ، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اعظم خان نے ان دونوں کو یہ بات بتایا تھا کہ اس ڈاکومنٹ کی حساسیت کیا ہے ؟ ان دونوں نے اس کو رٹا ہوا تو نہیں ہے ، بعض اوقات آپ کو نہیں پتہ ہوتا آپ نے ان کو کیسے ڈیل کرنا ہوتا ہے ، پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہر کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ کے اوپر لکھا ہوتا ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ اوپر والا تو ہمارے پاس ہے نہیں کیونکہ ڈاکومنٹ تو ریکارڈ پر ہے ہی نہیں ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ یہ کریمنل کیس ہے اس میں شک کا فائدہ ان کو جائے گا ، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کریمنل چارج ہے اس میں چھوٹا سا بھی شک کا معمولی فائدہ بھی ملزمان کو جائے گا ، عدالت نے سائفر کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی ۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں