وزیراعلیٰ سندھ کا کے ایم سیکو ایک قابل عمل فنانشل ماڈل دے کر اور انکے مختلف شعبوں کی تنظیم نو کرکے ریونیو اکٹھا کرنے کی ذمہ داری کیلئے انھیں معاشی طور پر مستحکم ادارہ بنانے کا عزم

جمعرات 21 جنوری 2021 20:42

وزیراعلیٰ سندھ کا کے ایم سیکو ایک قابل عمل فنانشل ماڈل دے کر اور انکے مختلف شعبوں کی تنظیم نو کرکے ریونیو اکٹھا کرنے کی ذمہ داری کیلئے انھیں معاشی طور پر مستحکم ادارہ بنانے کا عزم
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 جنوری2021ء) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کو ایک قابل عمل فنانشل ماڈل دے کر اور انکے مختلف شعبوں کی تنظیم نو کرکے ریونیو اکٹھا کرنے کی ذمہ داری کیلئے انھیں معاشی طور پر مستحکم ادارہ بنانے کا عزم کیا ہے۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے کے ایم سی کو معاشی طور پر مستحکم ادارہ بنانے اور سفارشات پیش کرنے کیلئے وزیر بلدیات سید ناصر شاہ ، مشیر قانون مرتضی وہاب ، سکریٹری لوکل گورنمنٹ نجم شاہ اور ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی لئیق احمد کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی۔

انہوں نے یہ فیصلہ کے ایم سی کی مالی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا جو نومبر اور دسمبر 2020 کے ماہ سے اپنے سینئر ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی میں ناکام رہا ہے۔

(جاری ہے)

اجلاس میں وزیر بلدیات سید ناصر شاہ ، مشیر قانون مرتضیٰ وہاب ، وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری ساجد جمال ابڑو ، سیکرٹری بلدیات نجم شاہ ، ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی لئیق احمد اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ کراچی ، ملک کا صنعتی مرکز ہونے کے ناطے پورے ملک کو مالی طور پر چلا رہا ہے پھر بھی یہ پریشان کن بات ہے کہ شہر قائد کی میٹرو پولیٹن کارپوریشن مالی بحران میں مبتلا ہے اور وہ اپنے اعلیٰ افسران کو تنخواہوں کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کے ایم سی کے مختلف شعبوں کو بحال کرنا ہوگا، خاص طور پر وہ جو محصولات وصول کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

وزیر بلدیات ناصر شاہ نے کہا کہ ڈی ایم سی نے وزیراعلیٰ سندھ کی رہنمائی میں نہ صرف اپنے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کی ہے بلکہ محصولات کی وصولی میں بھی اضافہ کیا ہے۔ ڈی ایم سی جنوبی کی مثال دیتے ہوئے ناصر شاہ نے بتایا کہ انھوں نے چارج شدہ پارکنگ سے 9ملین روپے جمع کرتے تھے اور اب مجموعی وصولی میں 750 ملین روپے تک اضافہ کردیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ چیزیں پلفریجز کو جوڑنے کیلئے ہیں۔

وزیر بلدیات نے یہ بھی کہا کہ ڈی ایم سی کورنگی اپنے علاقے سے گندگی اور کچرا اٹھانے پر 20 ملین روپے استعمال کرتی تھی لیکن اب انھوں نے اپنے اخراجات میں بہتر نظم و نسق سے کمی لاکر صرف 9 ملین روپے تک کردیاہے۔ اسی طرح ڈی ایم سی وسطی نے بھی دکانوں اور اس طرح کے دیگر اداروں سے اپنے وصولی کو بڑھایا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کے ایم سی کے پاس قیمتی اثاثے ہیں جیسے کہ شہر قائد میں خوبصورت پارکس اور ساحل سمندر کنارے ہٹ وغیرہ ہیں۔

کے ایم سی انہیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) موڈ پر کیوں نہیں چلارہی تاکہ وہ نہ صرف اس کیلئے آمدنی کا ایک معقول ذریعہ بن جائیں بلکہ اس کا صحیح انتظام بھی کیا جاسکے۔ ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی لئیق احمد نے وزیراعلیٰ سندھ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ تقریباً1.4 ملین اداری/ جائیدادیں ہیں جہاں سے کے ایم سی نے میونسپل یوٹیلیٹی اینڈ کنزروینسی ٹیکس (ایم یو سی ٹی) جمع کیا لیکن اس بار 35000 یونٹس سے صرف 280 ملین وصول ہوسکے۔

ایک حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹھیکیدار کے پاس ٹیکس وصول کرنے کیلئے کوئی پرنٹ شدہ بل / رسیدیں نہیں ہوتیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کے ایم سی میں صرف ایم یو سی ٹی سے ڈیڑھ ارب روپے جمع کرنے کی صلاحیت ہے اور یہ اپنے پٹرول پمپوں اور شادی ہالز کو بہترین بڈرز کیلئے نیلام کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا میں چاہتا ہوں کہ آپ ایک فنانشل ماڈل تیار کرکے ا?ئندہ 15 دن کے اندر پیش کریں اور پھر میں کے ایم سی کو ایک مالدار ادارہ بنانے کیلئے ضروری ان پٹ شامل کروں گا۔

۱وزیراعلیٰ سندھ نے محکمہ بلدیات کو بھی ہدایت کی کہ وہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی ای) سے موبائل فون ٹاورز کے ٹیکس وصولی واپس لیں اور اسے کے ایم سی کے حوالے کریں۔ انہوں نے یہ بھی ہدایت کی کہ ایس بی سی اے نے اب تک جو بھی وصولی کی ہے اسے واپس کے ایم سی کو دینا چاہئے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کے ایم سی کیلئے 170 ملین روپے کی گرانٹ کی منظوری دی تاکہ وہ اپنے سینئر ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کرسکے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ہر پندرہ روز کے بعد کے ایم سی کی مالی حیثیت کا جائزہ لیں گے۔#

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں