پاکستان سمیت دنیا بھر میں الزائمرکے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ

دنیا بھر میں مریضوں کی تعداد 5کروڑ ہے ‘ذہنی تناﺅ اور مشینی انداززندگی اب تک سامنے آنے والی وجوہات میں نمایاں ہیں.رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 22 ستمبر 2020 11:11

پاکستان سمیت دنیا بھر میں الزائمرکے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 ستمبر ۔2020ء) پاکستان سمیت دنیا بھر میں الزائمرکے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو ماہرین کے لیے باعث تشویش ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا میں حافظے کی کمزوری سے متاثرہ مریضوں کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ ہے. بین الاقوامی تنظیم ”الزائمر ڈیزیز انٹرنیشنل فیڈریشن “ کے زیر اہتمام الزائمرکے عالمی دن کے موقع پر جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے دو افراد کی یادداشت کسی نہ کسی حد تک متاثر ہو رہی ہے اور اگر یہی شرح برقرار رہی تو 2050ءتک 15 کروڑ 2 لاکھ (152ملین) افراد حافظے کی کمزوری کا شکار ہوجائیں گے، جن میں سے 68 فیصد کا تعلق کم آمدنی والے ممالک سے ہوگا.

اگر پاکستان کی بات کریں تواس مرض سے متعلق باقاعدہ طور پر تو کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں مگر ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً پانچ سے سات لاکھ افراد الزائمر کا شکار ہیں‘الزائمر، جو ڈیمینشیا (نسیان) ہی کی ایک قسم ہے یہ ایک ایسا ذہنی عارضہ ہے جس میں یادداشت کے نظام کے خلیے بتدریج ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں، جس کے باعث دماغ کے وہ حصّے، جن کا تعلق حافظے، سوجھ بوجھ اور شخصیت سازی سے ہوتا ہے متاثر ہوجاتے ہیں، اس مرض میں مبتلا مریضوں کی ناصرف یادداشت ختم ہونے لگتی ہے بلکہ سماجی سرگرمیوں میں بھی خلل واقع ہوتا ہے.

یہ مرض زیادہ تر عمر رسیدہ افراد ہی کو متاثر کرتا ہے۔

(جاری ہے)

خاص طور پر 60 سے 70 برس کی عمر کے افراد اس کی لپیٹ میں جلد آجاتے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں حافظے یعنی یادداشت کی کمزوری کو بڑھاپے کی علامت سمجھا جاتا ہے جس کے باعث اسے بہت زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی، حالانکہ یہ ایک دماغی مرض ہے، نہ کہ بڑھاپے کی بیماری ہے. جہاں تک الزائمر کی وجہ کا تعلق ہے تو اس ضمن میں تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے لیکن تاحال مرض میں مبتلا ہونے کی درست وجہ معلوم نہیں ہوسکی تاہم اب تک جو تحقیقات ہوئی ہیں، ان کے مطابق وٹامن بی 12 کی کمی، ذیا بطیس، فالج، نیند کی کمی اور سردرد کی ادویہ اور صحت مندانہ سرگرمیاں نہ ہونے کے باعث یہ بیماری لاحق ہوسکتی ہے.

علاوہ ازیں، نوجوانوں میں دیر سے سونا، جاگنا، متوازن غذا استعمال نہ کرنا اور جسمانی و ذہنی سرگرمیوں سے دوری حافظے کی کمزوری کا سبب بن سکتی ہے، تو بعض کیسز میں مستقل افسردگی، مایوسی، تنہائی اور ذہنی تناﺅ کے نتیجے میں بھی قوّت یادداشت جلد متاثر ہوجاتی ہے‘اسی طرح بلندفشارِ خون بھی الزائمر کا باعث بن سکتا ہے، کیوں کہ مستقل خون کا دباﺅ بڑھے رہنے کے باعث خون دماغ کی رگوں میں جم جاتا ہے جس کے باعث دماغ اپنے افعال درست طور پر انجام نہیں دے پاتا، تو نتیجتاً یادداشت کمزور ہوجاتی ہے، جبکہ بے صبح اٹھ کر سر درد ہونا، بوجھل پن محسوس ہونا، سوتے میں سانس پھولنا، خرّاٹے لینا بھی قوّتِ یادداشت کی کمزوری کی واضح علامات اور وجوہ ہوسکتی ہیں.

الزائمر کی ابتدائی علامات میں شخصیت میں تبدیلی، یادداشت میں کمی اور روزمرّہ امور انجام دینے میں دشواری محسوس ہونا شامل ہیں علامات کی شدّت میں اضافہ ہونے کی صورت میں مریض اپنی ذاتی صفائی ستھرائی، کھانا پینا حتیٰ کہ روز مرّہ معمولات بھی بھولنے لگتا ہے اور اس مرض میں مبتلا افراد معمول کے راستے، حتی کہ اپنے گھر کا پتا تک یا دنہیں رکھ پاتے.

حافظے میں اس قدر کمی واقع ہوجاتی ہے کہ قریبی رشتے داروں کے چہرے اور نام تک یاد نہیں رہتے اس صورت میں مریض کا بہت زیادہ خیال رکھا جائے علاوہ ازیں، چڑچڑاپن، ڈیپریشن اور ماحول سے بے زاری یا لاتعلقی جیسی علامات بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں‘اِس مرض کی تشخیص کے لیے سی ٹی اسکین، ایم آر آئی ، پیٹ اسکین کے علاوہ مریض اور اہل خانہ سے معلومات حاصل کی جاتی ہے ‘ ایسی موثر ادویہ دستیاب ہیں، جن کا استعمال مریضوں کے لیے روزمرہ زندگی کے معاملات آسان کر دیتا ہے تاہم، ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر کوئی دوا ہرگز استعمال نہ کی جائے.

اس کے علاوہ سماجی سرگرمیاں بھی مریض کی ذہنی صحت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں الزائمر سے متاثرہ مریض چونکہ نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہوجاتے ہیں، لہٰذا ان کے نفسیاتی مسائل کا علاج بھی ہونا چاہیے، تاکہ انہیں ایک کارآمد زندگی گزارنے کے قابل بنایا جاسکے اِس مرض سے محفوظ رہنے کے لیے متوازن غذا استعمال کی جائے، خاص طور پر سبزیوں اور سلاد کا زیادہ استعمال کریں، ورزش کو اپنا معمول بنالیں، تمباکو نوشی سے اجتناب برتیں، دماغی نشوونما کے لیے مطالعہ اور ایسی سرگرمیاں اپنائی جائیں، جن سے دماغ متحرک رہے.

ہمارے ملک میں چونکہ 60 سال سے زائد عمر کے تقریباً 10فیصد افراد حافظے کی کمزوری کا شکار ہیں، تو ابتداءہی میں مرض کی تشخیص بہت ضروری ہے واضح رہے کہ جو افراد زیادہ سوچ بچار، دماغ کا زیادہ استعمال کرتے ہیں اور باقاعدہ ورزش کو معمولات میں شامل رکھتے ہیں، ان میں اس بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر پائے جاتے ہیں.

متعلقہ عنوان :

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں