پاکستان کا پہلا خواجہ سرا وکیل

دس سال بھیک مانگ کر تعلیمی اخراجات پورے کیے

Sajjad Qadir سجاد قادر جمعہ 23 اکتوبر 2020 07:10

پاکستان کا پہلا خواجہ سرا وکیل
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 23 اکتوبر2020ء) نشا راﺅ جسے اب سبھی عزت کی نگاہ ہی نہیں بلکہ رشک کی نظروں سے بھی دیکھتے ہیں اسے کامیابی اور یہ مقام پلیٹ میں رکھا ہوا نہیں ملا بلکہ انہوں نے سڑکوں پر دس سال تک بھیک مانگی اور اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے بعد اب وہ وکیل بن چکے ہیں اور معاشرے کے معزز شہری ہیں۔ہمارے ملک میں خواجہ سراﺅں کے حقوق سرے سے ہیں ہی نہیں۔

کوئی بھی مرد کسی خواجہ سرا سے بات کرنا تو دور کی بات اس کے ساتھ کھڑے ہونا بھی پسند نہیں کرتا۔جس گھر میں خواجہ سرا پیدا ہو جائے وہ اتنی نفرت کرنے لگتے ہیں کہ اسے گھر رکھنے اور اپنی اولاد ماننے پر بھی تیار نہیں ہوتے۔مگر جیسے جیسے معاشرے میں شعور بڑھا ہے ویسے خواجہ سراﺅں کے حق میں بھی آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں اور انہیں ان کے حقوق ملنے لگے۔

(جاری ہے)

اب خواجہ سرا نہ صرف پڑھ رہے ہیں بلکہ پڑھ لکھ کر اچھے عہدوں پر بھی آ چکے ہیں اور اس سلسلے میں کئی معاشرتی تنظیمیں بھی سرگرم ہیں جو انہیں حقوق دلوا رہی ہیں۔کراچی کے ایک خواجہ سرا نے اپنی داستان حیات بتاتے ہوئے کہا کہ زندگی مجھ پر بھی مشکل تھی میں بھیک مانگتا تھااور اپنی ہی سوسائٹی اور اپنے جیسے لوگوں کے درمیان اٹھتا بیٹھتا تھا۔مگر مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔

جب میں اسکول گیا تو مجھے بہت تنگ کیا جاتااور مجھ پر فقرے چست کیے جاتے تھے۔مگر میں نے ہمت نہیں ہاری اور میں لگا رہا۔جب میں کالج میں تھا تو مجھے میرے استاد نے مشورہ دیا کہ میں وکالت کر لوں۔میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھا لہٰذا میں نے بھیک مانگنا شروع کی اور یونیورسٹی کی فیسیں ادا کیں۔میں صبح کلاسز لینے جاتااور شام میں بھیک مانگتا تھااور رات میں پڑھائی کرتا تھا۔

اب مجھے ڈگری کے ساتھ لائسنس بھی مل چکا ہے اورمیں نے اپنی سوسائٹی کے پچاس سے زیادہ خواجہ سراﺅں کے کیس حل کرائے ہیں۔نشا راﺅ کا مزید کہنا تھا کہ جب میں پڑھ رہا تھا تو مجھے پولیس سے بہت زیادہ ڈر لگتا تھا کیونکہ یہ گرفتار کر لتے تھے اس لیے بھی میں نے سوچا تھا کہ میں وکیل بنوں گا۔میں نے محنت کی اور اللہ نے مجھے میری محنت کا صلہ دیااور آج میں کامیاب ہو گیا۔

متعلقہ عنوان :

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں