حضرت امام حسینؑ نے شہادت دے کر قرآن و سنت‘ شریعت محمدی کا تحفظ کیا ،علامہ ساجد نقوی

جمعرات 20 ستمبر 2018 20:10

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 ستمبر2018ء) قائد ملت جعفریہ پاکستان اور اسلامی تحریک کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ نواسہ رسول سید الشہد ا حضرت امام حسین علیہ السلام نے حکمرانوں کی طرف سے ہر قسمی مالی‘ دنیاوی ‘ حکومتی اور ذاتی پیشکش کو ٹھکراکر صرف قرآن و سنت‘ شریعت محمدی‘ دینی احکام ‘ اوامر و نواہی اور اسلام کے نظام کے نفاذ کو ترجیح دی۔

محسن انسانیت نے بزور مسلط کی جانیوالی حکمرانی کوماننے سے انکار کردیا، اسلامی اصولوں اور بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی نفی پر مبنی جابرانہ نظام کو تسلیم نہ کیا اور اصلاح امت ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے مدینہ سے ہجرت اختیار کی۔ پیغام عاشورہ میں انہوں نے کہا کہ عاشور ایک کیفیت‘ جذبے‘ تحریک اور عزم کا نام بن چکا ہے۔

(جاری ہے)

واقعہ کربلا کے پس منظر میں نواسہ رسول اکرم حضرت امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد‘ آفاقی اصول اور پختہ نظریات موجود ہیں۔ عاشورا میں اس قدر ہدایت‘ رہنمائی اور جاذبیت ہے کہ وہ ہر دور کے ہر انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔امام عالی مقام، واقعہ کربلا سے قبل مدینہ سے مکہ اور مکہ سے حج کے احرام کو عمرے میں تبدیل کرکے کربلا کے سفر کے دوران اپنے قیام کے اغراض و مقاصد کے بارے میں واشگاف انداز سے اظہار کیا اوردنیا کی ان غلط فہمیوں کو دور کیا کہ آپ کسی ذاتی اقتدار‘ جاہ و حشم کے حصول‘ ذاتی مفادات کے مدنظر یا کسی خاص شخصی مقصد کے تحت عازم سفر ہوئے ہیں اور موت جیسی اٹل حقیقت کے یقینی طور پر رونما ہونے کے باوجود بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔

شب عاشور حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرف سے لوگوں کو اپنی بیعت سے آزاد کرنا‘ شعور و نظریہ اور آزادی و استقلال کے ساتھ شہادت کے سفر پر گامزن ہونے کا درس دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ61 ھ کے بعد روز عاشور امام حسین ؑ کے اسم گرامی کے ساتھ منسوب ہوگیا اس سے قبل عاشوراکا لغوی اور لفظی مفہوم علمی حد تک تو عیاں تھا لیکن عاشوراکی عملی شکل امام عالی مقام کے کردار سے سامنے آئی ۔

اور اس انداز سے اجاگر ہوئی کہ عاشورہ حریت کی ایک تعبیر بن گیا اور جب بھی عاشورہ کا ذکر ہوا تو انسان کے ذہن میں امام حسینؑ اور ان کی لازوال قربانی کا نقش اجاگر ہوا۔علامہ ساجدنقوی نے کہا کہ روز عاشور سے قبل شب عاشور بھی اپنے اندر ایک الگ تاریخ کی حامل ہے جب امام عالی مقام نے عاشورا کے بارے اپنے ساتھیوں ، جانثاروں اور بنو ہاشم کو آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ عاشورا برپا ہونے کی عملی شکل کیا ہوگی یہی وجہ ہے کہ شب عاشور جب چراغ گل کرایا گیا تو انسانوں کی تقسیم نہ ہوئی بلکہ ضمیروں کی شناخت ہوئی۔

کھوکھلے دعوئوں کی بجائے نظریہ کی پختگی کا اندازہ ہوا اور چند لمحوں کی وابستگی دائمی نجات کی ضامن بن گئی۔انہوں نے کہا کہ عاشورائے حسینی ہر دور میں پیروکاران حسین ؑ کو یاددلاتاہے کہ جب اس قسم کے حالات پیدا ہوجائیں تو وہ قیام کریں۔

متعلقہ عنوان :

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں