پختون سالانہ تیس ارب روپے کالاباغ ڈیم نہ بنانے کی قیمت ادا کررہے ہیں،شمس الملک،ڈیم نہ بننے سے خیبرپختون خواہ کی ساڑے آٹھ لاکھ ایکڑ زمین بنجر پڑی ہے،قوم ان لوگوں سے پوچھے جنہوں نے سیاسی مفادات کیلئے قومی منافع بخش منصوبے کی مخالف کی،منگلا اور تربیلہ ڈیموں کی تعمیر مکمل ہونے والی تھی کہ دنیا میں پاکستان کو ایمریجن ایشین ٹائیگر معاشی لحاظ سے قرار دیا جارہا تھا،سابق چیئرمین واپڈا

جمعرات 28 اگست 2014 19:30

پختون سالانہ تیس ارب روپے کالاباغ ڈیم نہ بنانے کی قیمت ادا کررہے ہیں،شمس الملک،ڈیم نہ بننے سے خیبرپختون خواہ کی ساڑے آٹھ لاکھ ایکڑ زمین بنجر پڑی ہے،قوم ان لوگوں سے پوچھے جنہوں نے سیاسی مفادات کیلئے قومی منافع بخش منصوبے کی مخالف کی،منگلا اور تربیلہ ڈیموں کی تعمیر مکمل ہونے والی تھی کہ دنیا میں پاکستان کو ایمریجن ایشین ٹائیگر معاشی لحاظ سے قرار دیا جارہا تھا،سابق چیئرمین واپڈا

نوشہرہ کینٹ (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔28اگست۔2014ء) سابق چیرمین واپڈا اور سابق نگران وزیر اعلیٰ شمس الملک نے کہا ہے کہ خیبرپختون خواہ کے پختون سالانہ تیس ارب روپے سالانہ کالاباغ ڈیم نہ بنانے کی قیمت ادا کررہے ہیں۔کالا باغ نہ بنے سے خیبرپختون خواہ کی ساڑے آٹھ لاکھ ایکڑ زمین بنجر پڑی ہوئی ہے۔قوم ان لوگوں سے پوچھے جنہوں نے سیاسی مفادات کے لیے قومی منافع بخش منصوبے کی مخالف کی۔

منگلا اور تربیلہ ڈیموں کی تعمیر مکمل ہونے والی تھی کہ دنیا میں پاکستان کو ایمریجن ایشن ٹائیگر معاشی لحاظ سے قرار دیا جارہا تھا۔ورلڈ بنک کے پلان کے مطابق 1995 ءء میں کالا باغ اور 2010 ءء میں بھاشا ڈیم مکمل ہوجاتے تو پاکستان کو نو ہزار مگاواٹ بجلی مہیا ہوجاتی۔زمینیں سیراب ہوجاتی اور ملک توانائی میں خودکفیل ہوجاتا۔

(جاری ہے)

مگر سازش کے تحت ہم کو توانائی بحران سے ددچار کیا گیا جس کی قیمت عوام بھگت رہے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پولیس اسٹیشن پبی میں Dispute Resolution Council (DRC) کے ممبران کی حلف برداری اور دفتر کے افتتاح کے بعد میڈیا کے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔اس موقعہ پر ڈی ائی جی مردان ریجن سعید وزیر اور ڈسٹرکٹ پولیس افیسر نوشہرہ رب نواز موجود تھے۔سابق چیرمین واپڈا اور سابق نگران وزیر اعلیٰ شمس الملک نے کہا ہے کہ ورلڈ بنک نے تین دریا وں کا پانی پر حق پاکستان کا تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کو دینے کا فیصلہ کیا پاکستان کی حکومت کو چاہئے تھا کہ ان ملنے والے پانی کو اپنے استعمال میں فوری طورپر لاتے اس پانی پر کالا باغ ڈیم،بھاشا ڈیم،آکوڑی ڈیم،داسو ڈیم اور پتن ڈیم بنائے جاسکتے تھے مگر ہندوستان اس کے مخالف تھا اور جو بھی حکومت آئی اس نے آپنی کرسی اور سیاسی مفادات کے پیش نظر وہ کام کیا جو ہندوستان چاہتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جنرل ایوب خان نے امریکہ جاکر ورلڈ بن کو دریائے سندھ کے پانی پر پاکستان کے موقف پر کاہل کیا جس کے بعد چار سال گزر جانے کے بعد ورلڈ بنک نے حکومت اور واپڈا کو ایک پلان دیا جس کو ورلڈ بنک کے تجربہ کار ماہرین نے تیار کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ منگلا اور تربیلہ کے بعد دریائے سندھ کے پانی پر پاکستان ورلڈ بنک کے پلان کے مطابق 1995 ءء میں کالا باغ اور 2010 ءء میں بھاشا ڈیم مکمل ہوجاتے تو پاکستان کو نو ہزار مگاواٹ بجلی مہیا ہوجاتی۔

زمینیں سیراب ہوجاتی اور ملک توانائی میں خودکفیل ہوجاتا۔انہوں نے کہا کہ جو بجلی آج ہم بیس روپے فی یونٹ تیار کررہے ہیں وہ ہم کو ایک روپے پچاس پیسے فی یونٹ ملتی مگر ہندوستان لوبی نے پاکستان کو سازش کرکے توانائی بحران سے دوچار کردیا ہے۔انہوں نے کہ خیبرپختون خواہ کے پختون سالانہ تیس ارب روپے سالانہ کالاباغ ڈیم نہ بنانے کی قیمت ادا کررہے ہیں۔کالا باغ نہ بنے سے خیبرپختون خواہ کی ساڑے آٹھ لاکھ ایکڑ زمین بنجر پڑی ہوئی ہے۔قوم ان لوگوں سے پوچھے جنہوں نے سیاسی مفادات کے لیے قومی منافع بخش منصوبے کی مخالف کی۔

متعلقہ عنوان :

نوشہرہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں