Wڈی جی آئی آیس پی آر نے لاپتہ افراد کے حوالے سے جو کہا گیا ہے ہم ثبوت کے ساتھ انکا جواب دہ ہیں پریس بریفنگ میں مچھ میں فورسز کے ساتھ مقابلے میں مارے جانے والے ودود ساتکزئی اور گوادر میں مارے جانے والے کریم جان کے نام لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل تھے جسے ہم تنظیمی سطح پر مسترد کرتے ہیں،ماما قدیربلوچ

پیر 13 مئی 2024 22:40

۴کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 13 مئی2024ء) وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ، ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسز ایک غیر سیاسی تنظیم ہے سیاسی عزائم نہیں رکھتے اور ہم بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف 2009 سے وی بی ایم پی کے پلیٹ فارم سے پرامن اور ملکی قوانین کے تحت جد و جہد کرتے آرہے ہیں ڈی جی آئی آیس پی آر نے لاپتہ افراد کے حوالے سے جو کہا گیا ہے ہم ثبوت کے ساتھ انکا جواب دہ ہیں پریس بریفنگ میں مچھ میں فورسز کے ساتھ مقابلے میں مارے جانے والے ودود ساتکزئی اور گوادر میں مارے جانے والے کریم جان کے نام لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل تھے جسے ہم تنظیمی سطح پر مسترد کرتے ہیں ۔

ان خیالات کا اظہار لاپتہ افراد کے کیمپ میں پریس کانفرنس کے دوران کیا اس موقع پر دیگر بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ودود ساتکزئی 12 اگست 2022 میں جبری گمشدگی کا شکار ہوا تھا اور 9 فروری 2023 میں بازیاب ہوئے انکی بازیابی کی تصدیق وی بی ایم پی اور انکے اہلخانہ نے کیا تھا جو ریکارڈ پر موجود ہے ودود ساتکزئی کے بازیابی کے بعد اسکے اہلخانہ سمیت کسی بھی تنظیم نے یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ جبری لاپتہ ہے اور نہیں کسی تنظیم کے لاپتہ افراد کے فہرست میں اسکا نام شامل تھا ودود ساتکزئی اپنے بازیابی کے بعد کب اور کس طرح بی ایل اے کو جوائن کیا تھا اسکے حوالے سے ہمیں علم نہیں ہے ۔

ڈی جی آئی آیس پی آر کے ترجمان نے اپنے پریس بریفنگ میں لاپتہ افراد کے حوالے سے الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ ملک سے باہر بیٹھے ہیں انکے نام بھی لاپتہ افراد کی فہرست میں موجود ہے اور بلوچستان کے علاقے مچھ اور گوادر میں فورسز کے ساتھ مقابلے میں مارے جانے والے ودود ساتکزئی اور کریم جان کے نام بھی لاپتہ افراد کے لسٹ میں شامل تھے کریم جان کو فورسز نے 23 مئی 2022 میں جبری لاپتہ کیا تھا اور 31 جولائی 2022 کو سی ڈی ٹی کی طرف سے ان پر دھماکہ خیز مواد رکھنے کا الزام لگا کر انکی گرفتاری ظاہر کی تھی تاہم انکی جبری گمشدگی کی ناقابل تردید شوائد کی وجہ سے عدالت نے انہیں تمام الزامات سے بجا طور پر بری کردیا اور 17 اگست 2022 کو عدالت کے حکم پر کریم جان کو رہا کیا گیا کریم جان کے رہائی کے بعد اسکے اہلخانہ اور نہی کسی تنظیم نے یہ دعوی کیا کہ وہ جبری لاپتہ ہے اور نہی لاپتہ افراد کے فہرست میں انکا نام شامل تھا ۔

پریس بریفینگ میں یہ بھی کہا کہ کچھ لوگ ملک سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں انکا نام بھی مسنگ پرسن کی فہرست میں شامل ہے اس کو مسترد کرتے ہیں اور ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کسی بھی ایسے شخص کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل نہیں ہے جو ملک سے باہر بیٹھا ہو یہ وہ بلوچ مسلح تنظیموں کا حصہ بن کر ریاست کے خلاف لڑرہا ہوں انہوں نے سرفراز بنگلزئی کے سلیم صحافی کے ساتھ ہونے والے ایک انٹرویو کا مثال دیتے ہوئے کہا کہ جہاں پر سرفراز بنگلزئی کہتا ہے کہ بہت سے ایسے لوگ ہے کہ وہ افغانستان میں بیٹھے ہوئے ہیں انکا نام لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل ہے تو سلیم صحافی ان سے سوال کرتا ہے کہ ایک ایسے شخص کا نام بتادے جو افغانستان میں بیٹھا ہے اور اس کا نام لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل ہے تو سرفراز بنگلزئی کہتا ہے کہ سفیر بلوچ افغانستان میں بیٹھا ہوا ہے اور اسکا نام لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ آج تک کسی نے یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ سفیر بلوچ لاپتہ ہے اور نہیں اسکا نام لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل ہے بلکہ سفیر بلوچ کا بھائی جمیل سرپرہ لاپتہ ہے دیکھے سرفراز بنگلزئی 15 سال سے بلوچ مزحتمی تنظیموں کے ساتھ منسلک رہا ہے اور افغانستان بھی چلا گیا تھا اب وہ ریاست کے سامنے ہتھیار ڈال دیا ہے لیکن ایک بھی ایسے شخص کا نام ثابت نہیں کرسکا کہ وہ ملک سے باہر بیٹھا ہو اور اسکے حوالے سے یہ دعوی کیا جارہا ہو کہ وہ لاپتہ ہے جب 1976 میں سردار عطا اللہ کے بیٹے اسد اللہ مینگل کو انکے ایک دوست احمد شاہ کرد کے ساتھ حساس اداروں نے شدید تشدد کے بعد غیر قانونی طریقے سے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کردیا جو بلوچستان میں جبری گمشدگی کا رپورٹ ہونے والا پہلا کیس ہے تو اس وقت کے وزیر اعظم ذولقفار بھٹو اپنے کتاب میں لکھا ہے کہ جب اس نے ملک کے طاقتور اداروں کے سربراہوں سے پوچھا کہ مجھے بتایا جائے کہ اسد اللہ مینگل اور اسکا دوست زندہ ہے یا نہیں اگر زندہ ہے تو وہ کس ادارے کے حراست میں ہے ذوالفقار بھٹو نے اپنے کتاب میں لکھتا ہے کہ انہیں طاقتور اداروں کے سربراہوں کی طرف سے یہ جواب ملا کہ اسد اللہ مینگل کے خاندان کو بتایا جائے کہ وہ اپنے دوست کے ساتھ افغانستان چلا گیا ہے اگر دیکھا جائے اب بھی پچاس سال گزرنے کے بعد بھی جبری گمشدگیوں کے حوالے سے ریاستی ادارے یہی منفی پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ لاپتہ افراد بیرون ملک چلے گئے ہیں یا پھر وہ کہتے ہیں کہ وہ بلوچ مزحمتی تنظیموں کا حصہ ہو کر ریاست کے خلاف مسلح کاروائیاں کررہے ہیں۔

کوئٹہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں