Gulu Karon, Shayron Aur Mosiqaron Ki Na Qabil Faramosh Khidmaat

Gulu Karon, Shayron Aur Mosiqaron Ki Na Qabil Faramosh Khidmaat

گلو کاروں ،شاعروں اور موسیقاروں کی ناقابل فراموش خدمات

6 ستمبر1965 جنگی ترانوں نے لوگوں کے ساتھ ساتھ فوجیوں کا بھی لہو گرمایا

پیر 3 ستمبر 2018

عنبر ین فاطمہ
بھارت نے 71سال میں پاکستان کو قبول نہیں کیا اور نہ ہی آج کے دن تک قبول کرنے کو تیار ہے ۔14اگست1947کو ہندوقیادت نے کہاکہ ”پاکستان چند دن زندہ رہ سکے گا“مگر بھارت کا یہ خواب پورا نہ ہوا ۔1947کے بعد بھارت سے پہلا سامنا کشمیر میں ہوا جہاں بھارتی فوج کو صوبہ سرحد کے پٹھانوں /بہادر کشمیر یوں نے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ۔

بھارت اقوام متحدہ کے پیچھے چھپ گیا مگر پاکستان سے ہندو بنیے کی نفرت کم ہونے کی بجائے بڑھتی گئی اور پھر 1965ء میں رن آف کچھ کے میدان میں شروع ہونے والی جھڑپیں اس قدر بڑھیں کہ بھارت نے 6ستمبر کی صبح لاہور اور دیگر مقامات پر علی الصبح حملے کرکے پاکستانی سرحد پار کرلی مگر پھر اسے وہ منہ توڑ جواب ملا کہ پاکستان نے اپنے سے 6گنا بڑے ملک کی کئی گنا بڑی فوج کو شکست سے دوچار کردیا ۔

(جاری ہے)

بھارت نے طاقت کے نشے میں پاکستان پر حملہ کر تو دیا لیکن اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ پاکستان فوج اس کا غرور مٹی میں ملادے گی ۔ہماری بہادر فوج نے 17روزہ اس جنگ میں بھارت کے 9ہزار سے زائد فوجی مارے ،ان کے سینکڑوں ٹینکس تباہ اور ایک سو دس جنگی طیارے مار گرائے ۔اگر ہم یہ کہیں کہ 1965میں فوج اورقوم نے دشمن کو سبق سکھایا تو بے جانہ ہوگا ۔پاکستانی فوج نے قوم کی مدد سے دشمن پر دھاک بٹھائی ۔
اصل میں بھارت کو رن آف کچھ کے معر کے میں شکست کا جو سامنا ہوا وہ اس چیز کا بدلہ لینے کی آگ میں جل رہا تھا ،بھارت اسی کی خفت مٹانے کیلئے ایک اور جنگ چاہتا تھا اس کے لیے باقاعدہ جنگی ماحول تیار کررہا تھا ۔زرا ماضی میں جھانکیں تو پتہ چلتا ہے کہ تقسیم ہند کے بعد ہی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان خاصی کشیدگیاں رہیں ۔اگر چہ تمام مسائل میں مسئلہ کشمیر سب سے بڑا مسئلہ رہا مگر دوسرے سر حدی تنازعات بھی چلتے رہے مثلا رن آف کچھ کا مسئلہ جس نے 1956ء میں سر اٹھایا ۔
6ستمبر 1965ء کی جنگ میں پاکستانی فوج کے ساتھ ساتھ تمام پاکستانیوں کے جذبے اور حوصلے بہت ہی بلند تھے ۔گلوکارہوں ،شاعر ہوں یا موسیقار ہر کوئی اپنے فوجیوں کا لہو گرما نے کے لئے جنگی ترانوں کو بناکراور گاکراپنے حصے کا کردار اداکررہا تھا ۔پاکستان نے 1965کی جنگ میں لازوال جنگی ترانے تخلیق کیے ،ریڈیو اسٹیشن لاہور نے لڑی جانیوالی اس خاک اور خون کی جنگ کو رومانوی جنگ میں تبدیل کردیا تھا ۔
گلوکاروں ،شاعروں اور موسیقاروں نے جذبہ حب الوطنی میں ایسے نغمے اور ترانے تخلیق کیے جن کو آج بھی سنا جائے تو ایک الگ ہی جوش اور ولولہ جاگ اٹھتا ہے ۔6ستمبر1965کو فوج نے اپنا مورچہ سنبھالا تو ارض وطن پر قربان ہونے کا جذبہ رکھنے والے شاعروں ،فنکاروں اور گلوکاروں نے بھی اپنا محاذسنبھال لیا ۔مرکز ریڈیو اسٹیشن لاہور تھا ۔روزانہ ایک گانا ریکارڈکیا جاتا تھا اور پورا پاکستان اسی انتظار میں ہوتا کہ اب کون سانغمہ فضاؤں میں گونجنے جارہا ہے ۔
اس وقت بننے والے ترانے ہر بچے کی زبان پر تھے ۔ہرکوئی ان نغموں کو گارہا تھا گلیوں اور بازاروں میں اللہ اکبر کی صدائیں گونج رہی تھیں ۔صوفی غلام تبسم نے کہا اے پُتر ہٹاں تے نئیں وکدے ۔تو نور جہاں نے گاکر انمول کردیا ،نور جہاں نے جس طرح سے اس ترانے کو گایا کہ سننے والی جہاں ہر ماں تڑپ اٹھی وہیں فوجیوں کے جذبے اور حوصلے مزید بلند ہوئے ۔
بات کریں ہم مہدی حسن کی تو وہ بھی پیچھے نہ رہے ۔مشیر کا ظمی نے شہیدوں کے نام سلام لکھا تو نسیم بیگم نے اسے گاکر امر کر دیا ۔یوں کہیے کہ اس وقت کے تمام گلوکاروں نے اپنے اپنے حصے کا فرض نبھایا ۔لاہور ریڈیو سٹیشن اس لحاظ سے بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہاں میڈم نور جہاں ،مہدی حسن ،نسیم بیگم ،مشیر کا ظمی ،مسعود رانا ،تاج ملتانی اور اس وقت کے تمام بڑے بڑے شاعر اور گلوکار آیاکرتے تھے یہاں کی رونقیں ایسی تھیں کہ شاید ان کو بیان کرنے کیلئے لفظ کم پڑ جائیں ۔
اس جنگ میں جس گلوکار نے جو گایا اور جس موسیقار نے جو بنایا وہ اپنی مثال آپ بن گیا اور آنے والے گلوکاروں کے لئے مشعل راہ بن گیا ۔1965کی جنگ میں ریڈیو پاکستان کے کردار کو کبھی جدانہ کیاجاسکے گا ،کیونکہ ریڈیو پاکستان سے گونجنے والے ملی اور جنگی نغموں نے اس جنگ کو پاکستانیوں کے لئے ایک رومانوی جنگ بنادیا تھا ۔جنگ میں دشمن سے سر حدوں پر لڑائی کے ساتھ ساتھ جنگی ترانوں کا بھی ایک محاذگرم ہوگیا ۔
وطن کے سپوتوں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے جنگی ترانے پوری قوم کی آواز بن گئے ۔وطن کے سجیلے جوانوں کا جوش وولولہ بڑھانے کے لیے پوری قوم یک جان ویک قالب ہو گئی ۔شعرا ء نے اس واقعہ کو شعری پیکر میں ڈھالا ،جنگی ترانے فضا میں بکھرے شعر وآواز نے ملکی دفاع میں بھر پور حصہ لیا ۔معروف شاعروں اور گلوکاروں کے ملی نغمے وطن کے سپوتوں اور عوام کا خون گرماتے رہے ۔
1965کی جنگ کا ایک محاذایسا بھی تھا جو ادیبوں ،شاعروں ،اور گلوکاروں نے سنبھالا اور ایسے ولولہ انگیز نغمے اور ترانے تخلیق کئے جو افواج پاکستان اورقومی جذبات کے ترجمان بن گئے ان کو سن کر فوجی بھائیوں نے اپنے اندر مزید ہمت پیدا کی اور ٹھان لیاکہ کچھ بھی ہوجائے دشمن کی آنکھوں میں نہ صرف آنکھیں ڈال کر دیکھنا ہے بلکہ ان کو منہ توڑ جواب بھی دینا اور بتانا ہے کہ پاکستان ہمیشہ رہنے کے لئے بناہے ۔
1965کی پاک ،بھارت جنگ ،مغرور دشمن کے جرنیلوں کو بہت مان تھا کہ وہ اگلا کھانا ''لاہور''میں کھائیں گے ،مگر اُن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملانے کیلئے ایک طرف شوقِ شہادت سے معمورفوجی جوان تھے ،تو دوسری طرف ارضِ پاک کی حفاظت کے جذبوں سے سرشار عوام اور ان دونوں کا حوصلہ بڑھایا شعر ا اور فنکاروں نے ۔مشہور فلمی ہیرو ندیم ستمبر 1965کے قومی جذبے کو آج بھی یاد کرتے ہیں ۔معروف اداکار مصطفی قریشی 1965کی جنگ میں ریڈیو پاکستان حیدر آباد میں پروڈیو سر تھے جن کے پیش کردہ نغموں نے فوج اور قوم کا حوصلہ بڑھانے میں بہت اہم کردار اداکیا ۔یہ جنگ 53برس پہلے ہوئی تھی لیکن یہ جنگ اور یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں متحدہوکررہنا ہے اور دشمن کی تمام چالوں کو ناکام بنانا ہے ۔

Browse More Articles of Lollywood