Ali Ejaaz Ko Kharaj Aqeedat

Ali Ejaaz Ko Kharaj Aqeedat

علی اعجاز کو خراج عقیدت

ایشین کلچرل ایسوسی آف پاکستان کی جانب سے لچنڈ اداکار علی اعجاز کی فتنی خدمات کو ”خراج عقیدت “

جمعرات 31 جنوری 2019

ایشین کلچرل ایسوسی آف پاکستان کی جانب سے لچنڈ اداکار علی اعجاز کی فتنی خدمات کو ”خراج عقیدت “
پیش کرنے کیلئے ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت سینئر اداکارہ بہار بیگم نے کی، صوبائی وزیراطلاعات وثقافت پنجاب فیاض الحسن چوہان مہمان خصوصی تھے ،علی اعجاز کے فرزند بابر علی اعجاز نے بھی تقریب میں خصوصی طور پر شرکت کی ۔
عزیز شیخ نے کمپےئر نگ کے فرائض انجام دئیے ۔
تلاوت قرآن پاک اور نعت شریف سے تقریب کا آغاز ہوا جس کے بعد ایشین کلچرل ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل سید سہیل بخاری نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میں 1981ء سے کسی حکومتی امداد کے بغیر ایشین کلچرل ایسوسی ایشن چلا رہا ہوں ۔
علی اعجاز سے میرے تین رشتے ہیں ۔
ایک رشتہ وہ ایک عظیم فنکار ہیں ،دوسرا وہ میری برادری سے تھے اور تیسرا رشتہ ان کا شجرہ میرے ننھیال سے ملتا ہے یعنی وہ سید گیلانی تھے ۔

(جاری ہے)

علی اعجاز کیساتھ میری کئی یادیں وابستہ ہیں ۔میں نے پاکستانی فلم کی ترقی کیلئے کئی فلم فیسٹیولز منعقد کروائے اور ہر فلم فیسٹیول میں علی اعجاز کی ”دبئی چلو “ضرور دکھائی جاتی تھی جس میں وہ فیملی سمیت شریک ہوتے تھے ۔
وہ ایک عظیم انسان اور بڑے فنکار تھے ۔اداکار عرفان کھوسٹ نے کہا کہ علی اعجاز میرے لئے بہت محترم تھے ،میں رائل پارک میں رہتا تھا اور وہ قلعہ گجر سنگھ میں ۔
میں رائل پارک سے پیدل پی ٹی وی جاتا تھا اور وہ سکوٹر پر سینٹر جایا کرتے تھے ۔واپسی پر مجھے میرے گھر تک چھوڑ دیتے اور یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ان جیسا فنکار صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے ،وہ ہمیشہ میرے دل میں رہیں گے ۔
اداکار مسعود اختر نے کہا کہ علی اعجاز بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے ،وہ بیک وقت ٹی وی ،سٹیج ،فلم اور ریڈیو کے اعلیٰ درجہ کے اداکارتھے۔
ان کا فن تاقیامت شائقین کے دلوں میں زندہ رہے گا۔مصنف ،فلمساز وہدایتکار محمد پرویز کلیم نے کہا کہ علی اعجاز نے فن کا وہ پودا لگایا جس کی ہمیں آبیاری کرنے کی ضرورت ہے ۔ہمیں چاہیے کہ فنکار کی پذیرائی کرتے رہیں ۔سہیل بخاری بغیر لالچ فنکاروں کی پذیرائی کرتا اور پاکستان ثقافت کی ترقی کیلئے خدمات سر انجام دیتا ہے ۔
میاں راشد فرزند نے کہا کہ میں نے بچپن میں علی اعجاز کی فلم ”دبئی چلو “دیکھی تھی جو بے حد پسند آئی ،وہ ہر کردار نبھانے کی صلاحیت رکھتے تھے ،بڑے فنکار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ زندہ دل انسان بھی تھے ۔

کلچرل جر نلسٹس فاؤنڈیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل ٹھا کر لاہوری اور سینئر نائب صدرز ین مدنی حسینی نے علی اعجاز کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھ ہمارا رابطہ مسلسل رہتا تھا،وہ وقت کے بہت پابند اور ورسٹائل اداکار تھے ۔
ڈی جی پلاک ڈاکٹر صغر اصدف نے کہا کہ وہ ایک بڑے فنکار ہونے کیساتھ ساتھ پیارے انسان بھی تھے ۔فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ وہ جلد علی اعجاز کیلئے ایک تعزیتی ریفرنس سر کاری سطح پر منعقد کریں گے ۔
اداکارہ بہار بیگم نے کہا کہ علی اعجاز کیساتھ میں نے لاتعداد فلموں میں کام کیا،ان کافن لازوال تھا،وہ ہر کردار بڑے جاندار انداز میں کرتے تھے ۔
بہار بیگم نے اس موقع پر علی اعجاز کیساتھ اپنے ایک فلمی سین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فلم کا سین کچھ یوں تھا کہ علی اعجاز میرے بیٹے کا کردار کررہے تھے جو اندھا تھا ،میں ان کیلئے روٹی پکا کر کھیتوں میں لے کر جاتی ہوں تو ہو چار پائی پر بیٹھے ہوتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ کیا پکا کر لائی ہو جس پر میں کہتی ہوں کہ پائے اور وہ فی البدیہہ کہتے ہیں کہیں میرے اندھے ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میرے ہی پائے تو پکا کر نہیں لے آئیں ۔

اس ڈائیلاگ کو علی اعجاز نے اس طرح ادا کیا کہ میں اپنا اگلاڈئیلاگ بھول کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئی ۔
بہار بیگم نے کہا کہ سہیل بخاری 37سال سے فن اور فنکار کی پذیرائی کر رہے ہیں ۔علی اعجاز کے انتقال سے فن کا ایک باب بند ہو گیا لیکن ان کا فن رہتی دُنیا تک زندہ رہے گا۔علی اعجاز کے صاحبزادے بابر علی اعجاز نے کہا کہ میں سید سہیل بخاری کا بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے میرے والد کیلئے یہ محفل سجائی اور مجھے یہاں آکر علم ہوا کہ لوگ اب بھی میرے والد کے فن کو یاد رکھے ہوئے ہیں ۔وہ عظیم والد تھے اور ہمارے دلوں میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

Browse More Articles of Lollywood