08 52 - Article No. 1031

08 52

52 08 - تحریر نمبر 1031

کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا۔کون سی جگہ ہے؟ کیا وقت ہوا ہے ؟ وہ خود کہاں ہے؟ بس چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا۔ اس کا سارا جسم شاید کسی قید میں تھا۔

ہفتہ 26 مارچ 2016

عمار مسعود:
کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا۔کون سی جگہ ہے؟ کیا وقت ہوا ہے ؟ وہ خود کہاں ہے؟ بس چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا۔ اس کا سارا جسم شاید کسی قید میں تھا۔ گھٹن ناقابل برداشت تھی۔ سانس رک رک کرآرہا تھا۔ سر میں شدید ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے کوئی زخم ہے جس سے خون بہہ رہا ہو۔ نقاہت اس کے وجود پرغالب آرہی تھی۔
خوف اس پرطاری ہورہا تھا۔اس نے چیخنا چاہاتو آواز کچھ فاصلے سے پلٹ کر واپس آگئی۔ اس نے اٹھنا چاہا تو جسم نے حرکت سے انکار کردیا۔ ہاتھ کو جنبش دینا چاہی تو اسے کسی نادیدہ گرفت میں جکڑا ہوا پایا۔ یہ سب حقیقت نہیں ہوسکتا۔ وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔ یہ سوچتے سوچتے وہ نقاہت کے زیراثر، ایک بار پھر بے چین سی نیند سوگئی۔

(جاری ہے)


دوبارہ اس کی آنکھ کھلی تو وہی منظر اس کے سامنے تھا۔

جانے وہ کتنی دیر سوئی تھی۔ چند گھنٹے یا چند لمحے کچھ خبرنہیں۔ اس کا سر برُی طرح دکھ رہا تھا۔ بہنے والا خون شاید اب رک چکا تھا۔ اس کے جسم کا نچلا حصہ کسی انجانے بوجھ تلے دبا ٹوٹ رہا تھا۔ اس کا بایا ں ہاتھ کمر کے نیچے کچھ اس طرح دبا ہواتھا کہ وہ باوجود کوشش کے اسے آزاد نہیں کروا سکی۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی غار میں قیدہے۔ اس نے اپنے داہنے ہاتھ کو پورے جسم کا زور لگا کر چہرے کے قریب کرلیا۔
ذرا سی اس حرکت کے لیے اسے مشقت کے ایک طویل سفر سے گزرنا پڑا۔ اس کا بدن لرز رہا تھا۔ نقاہت پھر اس کے بدن کی قوت پرغالب آ چکی تھی۔ نیم بے ہوشی کی کیفیت میں دوبارہ جانے سے پہلے وہ یہ جان چکی تھی کہ یہ سب خواب نہیں۔ وہ منوں مٹی کے انبار تلے دبی موت کے مہیب غار میں دھنسی ہوئی ہے۔
نیند کے ایک طویل وقفے کے بعد جب وہ جاگی تو اس مرتبہ اس کے حواس بہتر طور پر کام کررہے تھے۔
اس کا ہاتھ ابھی تک چھاتی پر جما تھا۔ اس نے اپنے چہرے سے مٹی ہٹا کر آنکھیں کھولیں تو چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا۔ خاموشی تھی۔ خوف کے مارے اس نے پھرآنکھیں بند کرلیں۔خون اس کے بالوں اور چہرے پر جم چکا تھا۔ اس کا دبا ہوا بازواسے شدید تکلیف دے رہا تھا۔ اس نے ملبے کے بوجھ سے اپنی ٹانگوں کو آزاد کروانے کی کوشش کی تو بہت سی مٹی اس پر آگری۔ مکمل طور پر دب جانے کے خوف سے وہ ایک دم ساکت ہوگئی۔
زندگی اور موت کے درمیان ایک مٹی کے غار میں وہ کہیں اتھاہ گہرائی میں دبی ہوئی تھی۔ سکوت کے سواکوئی چارہ نظرنہیں آرہاتھا۔ اسے اندھیرے کے اس غار میں اپنی ہر حرکت موت کی دستک لگ رہی تھی وہ پاگلوں کی طرح بے تحاشا چیخنے لگی۔ اپنے پیاروں کا نام لے لے کر دیر تک مدد کے لیے پکارتی رہی۔ چیخ چیخ کر اس کا گلا بیٹھنے لگا۔ اس کی آنکھوں کے گوشوں سے نکلنے والے آنسو اس کے چہرے کو بھگونے لگے۔
مٹی کے ذرّات اس کے ساتھ رونے لگے۔
ملبے کے اس حصار میں لیٹے لیٹے اس کے ذہن میں دھندلی سی تصویریں چلنے لگیں۔ اس کو کچھ کچھ یاد آنے لگا۔ اس نے اپنے تینوں بیٹوں کو ناشتا کروا کر سکول بھیج دیا تھا۔ اس کا شوہر گھر کے باہر موٹر سائیکل دھو رہا تھا۔ برتن دھونے کے بعد اس کو اپنے شوہر کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جانا تھا۔ پھر اس کے بعد کیا ہواتھا ؟ اس نے لیٹے لیٹے ذہن پر زور دیا تو تصویریں کچھ واضح ہونے لگیں۔
اسے یاد آیا کہ زمین اچانک لرزنے لگی تھی۔ کوئی زلزلہ سا آگیا تھا جیسے۔ اسے یاد آرہا تھا کہ جب وہ ڈر کے باہر کی جانب بھاگی تو اس کے گھر کا فرش چھت سے جالگا تھا۔ سب کچھ ٹوٹنے بکھرنے لگا تھا۔ چھت کا شہتیر اس کی جانب بڑھا تھا۔ بس یادداشت کے فریم میں یہ آخری تصویر جم کر رہ گئی تھی۔ اس کے بعد کے سارے لمحے گم تھے۔
اس نے جانے کیا سوچ کر اپنا ہاتھ تھوڑا سا بلند کیا۔
لکڑی کا وہی شہتیر اس کی پوروں سے مس ہوا۔ وہ اب بھی اس پر ایک طرح سے چھت ڈالے ہوئے تھا۔ ایک زندہ لاش کی طرح اندھیری قبر میں قید وہ لکڑی کے اس مانوس ٹکڑے کو تھام کر رونے لگی۔
پھر اس نے سوچنا شروع کیا کہ اس کا شوہر اور بچے کہاں ہوں گے؟ ان کے سکول کا کیا بنا ہوگا؟ اس ہسپتال میں اب کون رہا ہوگا؟ تباہی صرف اس کے گھر میں آئی تھی یا پھر سارا علاقہ ملبے میں دَب گیا ہوگا؟ وہ ان سوالوں کو سوچ رہی تھی کہ اس کے پیٹ میں ایک عجیب سی جنبش ہوئی۔
ساری بات کڑکتی بجلی کی طرح اس پر واضح ہوگئی۔ خوف کے مارے اس نے اپنے ہاتھ سے پیٹ کو تھام لیا۔ ڈاکٹر نے آخری چیک اپ کے لیے بلایا تھا۔ وہ ہسپتال میں داخلے کی تاریخ لینے ہی تو جارہی تھی۔
اس انکشاف سے اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوگیاکہ وہ یہاں تنہا نہیں ہے۔ کوئی اور بھی ہے، ایک جیتی جاگتی زندگی جو کئی مہینوں سے اُس کے وجود میں پل رہی ہے۔
ننھے سے دل کی دھڑکن محسوس کرکے اس کی ساری حسّیں بیدارہو گئی تھیں۔ اپنی تکلیف پر اب مامتا غالب آنے لگی۔ وہ آنسوؤ ں کو بھول کر دنیا میں آنے والے ایک نئے وجود کو سہلانے لگی۔ اپنے بچے کو روشنی کی کہانی سنانے لگی۔
سارے شہر میں امدادی کارروائیاں زور پکڑگئی تھیں۔ رضا کار ٹیمیں اپنے ساتھ ایسے آلات لے آئی تھیں جن کی مدد سے زمین کے نیچے دبے افرادکو اُن کی آواز سے تلاش کیا جاسکتا تھا۔
ایک مقام پر کسی زندہ وجود کے شبہ میں جب رضا کاروں نے کھدائی شروع کی تو پہلے مرحلے پر راستے میں حائل لکڑی کے ایک بڑے شہتیر کو کرین کی مدد سے اٹھایا گیا۔ قریب کھڑے لوگوں نے دیکھا کہ مٹی کی اس قبر میں ایک نیم جاں سی سانس لیتی ماں خون اور مٹی میں لتھڑی جیتی جاگتی نوزائیدہ بچی کو چھاتی سے لگائے زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے روشنی کو دیکھ رہی تھی۔
8.52پر آنے والے زلزلے کو اس وقت تک تین دن گزر چکے تھے۔

Browse More Urdu Literature Articles