Muhabbat Ki Chaon - Article No. 2580

Muhabbat Ki Chaon

محبت کی چھاؤں - تحریر نمبر 2580

سر بام چاند جھلک رہا تھا ۔ انگوروں کی لٹکتی شاخوں کے نیچے نورس کلی اس کے کندھے پر سر رکھے بیٹھی تھی

Asaad Naqvi اسعد نقوی منگل 20 جون 2023

سر بام چاند جھلک رہا تھا ۔ انگوروں کی لٹکتی شاخوں کے نیچے نورس کلی اس کے کندھے پر سر رکھے بیٹھی تھی ۔وہ نوجوان اور نورس کلی آسمان پر چاند کے سائے میں چمکتے تاروں سے بنی شبیہ کو دیکھ رہے تھے ۔محبت کے سمندر کی لہروں نے دل کی دھڑکن کو تیز کردیا تھا ۔ چاہت کی مٹھاس اور بھروسے کی آگ پر پکی عشق کی چائے نے دونوں کی روح کو سرشار کردیا تھا ۔
نورس کلی کی آنکھوں میں سجے خواب نوجوان کے ہاتھوں پر بنے چھالوں کی صورت میں محبت و تحفظ کی گواہی دے رہے تھے ۔ نوجوان نورس کلی کی آنکھوں کی گہرائی میں چھپی کہانی کو پڑھ چکا تھا ۔اس کے چہرے کے تاثرات نے دل کا حال بتا دیا تھا ۔نورس کلی کے بنا کہے ہی نوجوان ساری داستان کو جان چکا تھا ۔ دل کا درد آنکھوں میں عیاں ہوجاتا ہے ۔

(جاری ہے)

چہرے پر سجی مسکراہٹ کے پیچھے سچائی کبھی نہیں چھپتی وہ چہرے کے تاثرات میں واضح ہوجاتی ہے۔

محبت بے لبا س نہیں ہوتی اعتماد کی چادر ہمیشہ محبت کو ڈھانپ لیتی ہے ۔وقت کی سوئیاں تیز دوڑتی ہی نہیں بلکہ اپنے نشان بھی چھوڑتی جاتی ہیں بلکہ یوں سمجھیے کہ وقت زخمی روح کو کچلتا ہوا گزرتا چلا جاتا ہےاور اس کی سوئیاں جسم میں پیوست ہوکر ایک ایک لمحہ ایک ایک منٹ ایک ایک سیکنڈ کی یاد دلاتی رہتی ہیں ۔عشق کی بھٹی میں جل کر انسان کندن نہیں بنتا بلکہ وہ عشق کی بھٹی سے نکلنے کے بعد زمانے کی ٹھوکروں کے سہارے ہوتا ہے اور اس کے ساتھ زمانہ جو کرتا ہے وہ کہانی سب کو معلوم ہے ۔
انسان تب تک ہی محفوظ ہے جب تک اس کی اعتماد کی چادر قائم ہے اور محبت کے سمندر میں چلتی الفت کی ناؤ کو آسمان اور سمندر کےقہر سے بچا کر زندگی کے ساحل تک پہنچانا ہی اصل منزل ہے ۔ زندگی کے ساحل پر پہنچنے والے اس جزیرے پر پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کی زندگی کا نیا امتحان شروع ہوجاتا ہے ۔ محبت کی مثال نہر کے ان کناروں کی طرح ہے جو بظاہر الگ الگ نظر آتے ہیں مگر اصل میں وہ یکجاہوتے ہیں ایک ہی وجود کے دو حصے ہوتے ہیں ۔
ان کناروں کے اندر پوری کائنات بسی نظر آتی ہے ایسے ہی محبت کرنے والے وجود بھی دل و دماغ سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہیں ان کے دل میں عشق کا ایک شہر بسا ہوتا ہے ۔ زندگی کے جزیرے پر محبت کے سمندر کی لہریں دل کی دھڑکنوں کو تڑپا دیتی ہیں ۔ نورس کلی نے نوجوان کی طرف دیکھا اور اس کے ہاتھوں کو پکڑا جہاں محنت کی داستان رقم تھی ۔
نم آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا اور کہا دنیا کی گرم ہوا اور بے رحم موجوں سے ٹکرانے کے بعد اپنے دل میں چھپے غم کے طوفان کو بہہ جانے دو ۔دنیا ظالم ہے مگر یہ یاد رکھنا کہ یہ تصویر کا ایک رخ ہے جبکہ آپ اپنے ساتھ جڑے افراد کے لیے پوری دنیا ہیں اور ان کے لیے دنیا کے سخت لہجوں کو برداشت کرکے سکھ و راحت کے لمحات فراہم کرتے ہیں ۔ محبت کا یہ رخ کوئی نہیں جانتا لوگ درخت کو دور سے دیکھتے ہیں مگر قریب جا کر دیکھیں تو اسی درخت کی شاخوں میں پرندہ اپنے گھونسلے میں بیٹھا خود کو محفوظ تصور کرتا ہے ۔
یہی جنت ہے ۔ یہی جنت کا ایسا منظر ہے جہاں پرندے کے نئے بچے آشیانہ میں بیٹھے سورج کی دھوپ سے لاعلم ہوتے ہیں اور جب یہی چھاؤں ختم ہوتی ہے یا درخت کٹ جاتا ہے تو تب معلوم ہوتا کہ دنیا کا دوسرا رخ کیا ہے ۔ سب سے مضبوط سہارا ہی جب چھن جائے تو دنیا نوچ ڈالتی ہے ۔ وقت کی سوئیاں جو بہت تیز گزرتی ہیں وہ اس لمحے تھم جاتی ہیں ۔ زمانے کی گردش میں وقت رک سا جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے زندگی کو گھسیٹا جا رہا ہے ۔
نوجوان نے نورس کلی کی طرف دیکھا اور کہا : جب تک یہ چھاؤں سر پر رہتی ہے نا تو کسی چیز کا احساس یا قدر نہیں ہوتی ۔جب یہ چھاؤں ختم ہوتی تو معلوم ہوتا ہے سر پرآسمان ہے اور نیچے گہری کھائی ،کہیں سخت لہجے تو کہیں طنز کے نشتر۔سنو !دنیا کے اس روپ کو سمجھنا ہے تو حالات کے مارے کسی ایسے شخص کو دیکھنا جو بے بسی سے کچھ کہہ نہیں سکتا ہوتمہیں اس کی آنکھوں میں ساری کہانی نظر آئے گی ۔

Browse More Urdu Literature Articles