Hazmiyat - Article No. 2561

Hazmiyat

"ہزیمت" - تحریر نمبر 2561

گلی کے دونوں طرف سناٹا چھایا ہوا تھا ، آسمان پر سورج سوا نیزے پر موجود تھا۔ گرم لو کے خاموش تھپیڑے فضا میں ہر سو تھر تھرا تھے۔

Ahmad khan lound احمد خان لنڈ جمعہ 9 جولائی 2021

گلی کے دونوں طرف سناٹا چھایا ہوا تھا ، آسمان پر سورج سوا نیزے پر موجود تھا۔ گرم لو کے خاموش تھپیڑے فضا میں ہر سو تھر تھرا تھے۔ گلی میں ایک مکان کی افقی چھاؤں میں دو آوارہ کتے نیم مرطوب زمین پر لیٹے لیٹے سستا رہے تھا اور اپنی آدھ کھلی آنکھوں سے مختصر وقفوں کے بعد ماحول کا جائزہ لیتے ۔ہر طرف مکمل سناٹا چھایا ہوا تھا ، فقط دو گھروں کی کھڑکیاں اور ایک گھر کا دروازہ گلی کی جانب کھلے ہوئے تھے ۔
پہلی کھڑکی سے ایک 18 سے 19 سال کی دوشیزہ باہر جھانک رہی تھی ، اس نے اپنے چہرے کو بے پناہ بے کچھ قدر بے ڈھنگے سے میکپ سے رنگنے کی سعی کی ہوئی تھی ، اس کی دھنسی ہوئی آنکھوں کے سبب اس کا چہرہ روکھا سا بے جان معلوم ہوتا تھا اور کسی خاص وجہ کے بغیر شاید اس کی سمت کوئی کشش موجود تھی۔

(جاری ہے)


دوسری کھڑکی سے ایک 24-25 سالہ خاتون بھاری بھرکم چہرے کے ساتھ ہونٹوں پر سرخی اور چہرے پر تیز رنگ میں لالی سجائے اپنے ماتھے پر بالوں کی لٹ لہراتے ہوئے گلی کے دائیں جانب داخلی راستے کو مسلسل گھور رہی تھی اور اس کے ہی ساتھ مخالف سمت میں کھلے ہوئے تیسرے دروازے پر بھاری بھرکم ڈول والی ایک اور 22-23 سالہ لڑکی اپنی ہی مستی میں مگن ہاتھ لہرائے جا رہی تھی جیسے شاید کسی کو رکنے کا اشارہ کئے جا رہی ہوں یا ہوا کی تمازت ماپنا چاہتی ہو ۔


گلی میں اب تلک مکمل خاموشی قائم تھی اور گرمیوں کی اس تپتی دوپہر میں یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کسی نے وقت کی سوئی کو روک لیا ہو ۔کھڑکیوں اور دروازے سے جھانکے والی لڑکیوں اور خاتون کی آنکھیں مسلسل ٹک ٹکی باندھیں داخلی راستے کی جانب مگن تھی اور ان سب کی آنکھوں میں بے چینی اور انتظار کی کیفیت واضع تھی ۔گلی میں جھانکتی خاتون اور لڑکیوں نے خود کو خوبرو دکھانے کی ہر ممکن کوشش کی ہوئی تھی اور اپنے گمان میں غالباً وہ خود کو کسی شہزادی جیسا محسوس کر رہی تھیں جو شاید کسی شہزادے کے انتظار میں جو کچھ لمحے کے لیے ہی سہی ،ان کی زندگی میں بہار لے آئیں۔

خاموشی کے اس جمود کو توڑتے ہوئے مشرق کی جانب سے موٹر بائیک کی آواز مسلسل قریب تر ہونے لگی جیسے کوئی گلی میں داخل ہونے والا ہو ۔یکا یک دو نوجوان لڑکے ایک کرتا شلوار اور دوسرا سیاہ پینٹ شرٹ اور سیاہ ماسک میں ملبوس، جو اپنی وضع قطع سے کسی امیر گھرانے کے بگڑے لڑکے معلوم ہوتے تھے جو شاید پیسے کی فراوانی یا جزبہ شہوانیت سے مغلوب ہو کر اس گلی میں آ رہے تھے ، یکا یک کھڑکیوں اور دروازے سے جھانکتے چہروں پر ترو تازگی آ گئی اور ایک لڑکی نے خاتون کو چلا کر کہا ،باجی! "منڈے آ گئے نے۔
۔۔۔۔" پہلی کھڑکی میں سے جھانکتی لڑکی نے نے ہاتھ نکال کر انگلیوں سے تین کا ہندسہ بنایا ، دوسری نے انگلیوں سے 2 کا ہندسہ بنا کر نوجوان کو مائل کرنے کی کوشش کی لیکن ندارد ۔کھلے ہوئے دروازے کی جالی پر پہنچتے تک تیسری لڑکی مکمل طور پر باہر نکل آئی اور اپنے جسمانی خدوخال دکھاتے ہوئے آنکھ کے اشارے سے اندر بلانے کی کوشش کی لیکن دونوں نوجوان ان تینوں لڑکیوں پر اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال کر گلی سے بے چوں چراہ باہر نکل گئے ۔
تینوں لڑکیوں نے ایک دم ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور مایوسی سے سر جھکا لیا ،جیسے کسی نے ان کی جوانی اور ان کے اس چمکیلے زرق برق و کو اہمیت نہ دیتے ہوئے ان کی بے قدری کی ہو۔ کچھ لمحات کی خاموشی کے بعد اچانک تینوں نے ایک دوسرے کو سر اٹھا کر دیکھا اور مل کر زور زور سے قہقہے لگانا شروع کردیے۔گلی کی خاموشی تینوں کے قہقہوں سے پارہ پارہ ہوگئی۔

Browse More Urdu Literature Articles