Rait - Article No. 2578

Rait

ریت - تحریر نمبر 2578

ہاتھوں میں ہاتھ لئے نرم گیلی ریت پراپنے قدموں کے نشان بناتے وہ آگے اور آگے بڑھتے گئے ، ہر کچھ قدم چلنے کےبعد ایک لہر آکے وہ نشان مٹاجاتی تھی

سعدیہ معظم بدھ 16 فروری 2022

ہاتھوں میں ہاتھ لئے نرم گیلی ریت پراپنے قدموں کے نشان بناتے وہ آگے اور آگے بڑھتے گئے ، ہر کچھ قدم چلنے کےبعد ایک لہر آکے وہ نشان مٹاجاتی تھی ۔۔۔۔۔جو پیچھے چھوڑ آئے تھے۔
ابھی شادی کو کچھ ہی عرصہ ہوا تھا ،اس کی اٹھکیلیاں ،شوخیاں شوہر کو لبھاتی تھیں مگر ساس نندوں کو یہ سب چھچورا پن لگتا تھا اسی لئے شوہر نام دار سب گھر والوں کے سامنے چہرے پہ مسکراہٹ بھی نہ لاتے ،اپنے کمرے میں جانے کی جرت اس وقت تک نہ ہوتی جب تلک ساس اپنے تخت پر پاندان سمیٹ کر لیٹنے کی تیاری شروع نہ کرتیں ۔
۔۔۔
وہ دن بھر کی تھکی انتظار کی سولی پہ لٹکی ان کے کمرے میں آنے سے پہلے ہی سوچکی ہوتی ۔
ہر شوخی اور اٹھکیلی ایک ایک کرکے مانند پڑتی جارہی تھی ، کبھی کھانے میں نمک زیادہ ہوگیا تو رات میں شوہر کے موڑ سے اندازہ ہوتا کہ کھانا گھر والوں کو ہضم نہیں ہوا ، کبھی چائے کی پیالی اوپر سے پکڑ کر آگے بڑھادی تو چائے سمیت پیالی کمرے سے باہر ۔

(جاری ہے)

۔۔
حمل کے شروع کے دن اور سسرال کی دعوت اگر کام کرنے میں سستی کردی تو رات میں شوہر کامزاج دن میں ہونے والے حالات کا پتادیتے تھے ۔
سسرال بھی کوئی ایک دو افراد پر محیط نہ تھا پوری پلٹن تھی اور جب شوہر کی حمایت نہ ہو تو عورت پورے گاؤں کی جورو بن جاتی ہے۔۔۔
سسرال اور میکہ کواگر جنت اور جہنم سے تشبیح دی جائے تو شاید کچھ غلط نہ ہوگا ۔
خیر شادی کے بعد ہر گزرتا دن شادی کاخمار اتارتا گیا ۔پھول سی لڑکی شوہر کو اپنا بناتے بناتے اپنا آپ کہیں کھو آئی تھی سب برداشت تھا دن رات کی مشقت اوپرتِلے بچوں کی پیدائش ،سالوں میں میکے کارخ اپنے بہن بھائیوں کے سامنے اپنے شوہر کا بھرم برقرار رکھتے ہوئے اب وہ ایک عورت ہوگئی تھی۔
کہتے ہیں جب تک ماں باپ کادم ہو تب تک ہی میکہ رہتا ہے ،بھائی کی شادیاں ہونے پر اپنے ماں باپ کا گھر بیگانہ سا لگنے لگتا ہے۔
شادی شدہ عورت چاہتے ہوئے بھی میکے جاکر اپنے ماں باپ کی خدمت نہیں کرسکتی ۔
اپنی ماں کی جوانی میں اسے کبھی اس بات کی فکر نہی ہوئی لیکن اب ماں ضعیفی کی طرف بڑھ رہیں تھیں وہ جب بھی اپنی بوڑھی ساس کی خدمت کرتی۔ اس کواپنی ماں شدت سے یاد آتی ۔
اب ساس بھی کافی ضعیف اور بیمار رہنے لگیں تھیں ،کھانا پینا سب بستر پر آگیا تھا اس نے اپنی ساس کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی شوہر تو تھے ہی اپنی ماں کے فرماں بردار لہذا وہ خود بھی اس نیکی میں پیش پیش رہتے اور اپنے بچوں کو بھی تلقین کرتے ۔
ساس کافی عرصے بستر پررہیں ،جوپلٹن وہ اس کی نئی شادی کے دنوں میں جمع رکھ کرخوش ہوتی تھیں آج بستر مرگ پر انھی چہروں کو دیکھنے کوترس رہیں تھیں ۔۔۔۔اسی دوران وہ اس دنیا سے رخصت ہوئیں پیچھے رہ جانے والوں میں اگر کوئی اداس تھا تو وہ اور اس کے بچے جنھوں نے آخری وقت میں جی وجان سے خدمت کی تھی ۔
کافی عرصے بعد میکے کا چکر لگا سب بہن بھائی بھابیاں ایک دستر خوان پر جمع تھے ۔
اپنی ماں کی جانب نظر پڑی تو محسوس کیا کہ وہ کھانا رغبت سے نہیں کھارہی ،بھابی کے سامنے پوچھنا مناسب نہیں لگا ۔۔۔
رات پلنگ پر اپنی ماں کی بغل میں بچپن کی طرح گھس کر لیٹ گئی اور ان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر چومنے لگی ،ماں بھی سر سہلانے لگیں ،دھیمے سے پوچھا “امی !آپ کی طبیعت ٹھیک ہے “۔ماں پھر ماں ہے کہ دیا” بالکل ٹھیک ہوں مجھے کیا ہوا،بس زیادہ مرچ مصالحہ اب کھایا نہیں جاتا”۔
وہ بولی “آپ دلیہ پکوالیا کیجئیے “ماں چپ سی ہوگئیں ۔شاید ان کی چپ میں ہی جواب تھا ۔اس نے بھی پلٹ کرسوال نہیں کیا ۔
کچھ دن رہ کے وہ اپنے گھر کو ہولی ۔الوداعی نظروں سے در ودیوار کودیکھا اس بار واپس جاتے ہوئے اس کا دل بہت اداس تھا ۔
گاہے بگاہے وہ اپنی ماں کی خیریت دریافت کرتی رہتی تھی ،اس کی ماں کی حالت روز بروز بگڑتی جارہی تھی وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی ماں کے پاس نہی جاپارہی تھی ،بچوں کا اسکول شوہر کا آفس گھر کی ذمہ داری ۔
۔بس دل تھا جو ماں کے پاس اٹکارہتا تھا ،ماں کاگھر قریب ہوتا تو شاید دن میں دس چکر لگاآتی کبھی کچھ پکا کرلے جاتی مگر افسوس گھروں کے بیچ بہت فاصلہ تھا کچھ فاصلہ دلوں میں بھی تھا ورنہ تو کچھ دن رہ آتی ۔۔۔۔۔۔
وہ اکثر تڑپ کر یہ سوچتی کہ کاش! وہ اپنی ماں کو اپنے گھر لے آتی ۔۔۔۔ان کی خدمت دل بھر کر تی ۔گھر پہ ماں کے پاس ہوتا ہی کوں تھا سب بھائی دن بھر اپنے کاموں پر ہوتے ،رات گئے آکر ماں کے پاس حاضری لگاتے اور اپنے اپنے کمروں میں دروازے کے کنٹیاں چھاکر سوجاتے ۔
دن میں بھابیاں وقت پر کھانا دینے کو بہت خدمت سمجھتی ،دوگھڑی بیٹھ کر مزاج پرسی کا وقت نہیں ہوتا تھا ان کے پاس ۔
بھائی کاصبح ہی صبح فون آیا “ماں آج گر گئیں ہیں انھیں دیکھنے آجانا،اور سمجھانا بھی کہ آدھی رات میں اکیلے واش روم کےلئے کیوں جاتی ہیں کسی کوآواز دے لیا کریں “۔
بھائی کی یہ بات کتنی احمقانہ تھی جب سب ہی کمرے بند کرکے سوجائیں گے تو آواز دی بھی ہوتو کسی نے کہاں سنی ہوگی ،یہ سوچ کر وہ بے تحاشہ روئی اس نے فیصلہ کیا کہ اب کے وہ اپنی ضصیف ماں کو اپنے ساتھ لے کر آئے گی۔

بڑی بھابی اس کی خواہش سن کر چیخ پڑیں “کیا پاگل ہوگئی ہو دنیا کیا کہے گی ہم دو وقت کی روٹی نہیں کھلاسکتے جو بیٹی کے گھر بھیج دیا”۔چھوٹی بھابی کیسے چپ رہتی تنتناتی ہوئی آئیں اسے ہاتھ سے ایک طرف بٹھایا اور بولیں “دیکھو بی بی اپنے گھر تک محدود رہو آؤ ،بیٹھو ،حال احوال پوچھو کچھ خدمت کرنا چاہو کرو اور پھر اپنے گھر کی راہ لو،ہمارے گھر کے معاملے میں ٹانگ مت اڑاؤ۔
۔۔ہم بال بچے دار ہیں دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے ،کل ہم نے اپنی بچیاں بیاہنی ہیں ،ان کے سسرال کو کیا جواب دیں گے کہ ہم نے اپنی ساس کو گھر سے نکال دیا “۔بڑی بھابی اپنے شوہر کو گھورتی ہوئی اس سے مخاطب ہوئیں،”اتنے گئے گزرے نہیں ہوئے ہیں کہ داماد کے ٹکڑوں پر چھوڑ دیں ماں کو ،تمہیں آنا ہے سو مرتبہ آؤ لیکن ماں کو ساتھ لے جانے کا خیال دل سے نکال دو۔

بھائیوں نے اپنی بیویوں کے تیور دیکھے تو گھر کا ماحول خراب ہونے سے بچانے کے لئے بات کو یہیں ختم کروادیا ۔وہ ایک دن اپنی ماں کے پاس رکی ،باورچی خانے میں دو چار کھانے اپنی ماں کے لئے بنا کررکھ دئیے ،رات میں انکی ٹانگیں دبائیں ،گرم تیل سے مالش کی ، بیچ رات میں ہلکی سی آہٹ پر آنکھ کھل گئی دو ایک دفعہ انہیں بیت الخلاء لے کرگئی ۔

اگلے دن شام کو واپس اپنے گھر آگئی ،گھر آتے ہی شوہر کاسوجا منہ دیکھنے کو ملا ،چونکہ اس مرتبہ جلدی میں گئ تھی سو کچھ پکا کر نا جاسکی ،کھانا نہیں ملا تو شوہر صاحب منہ بھلا کر بیٹھ گئے۔
رات بستر پر لیٹی تو دل بہت اداس و پریشان تھا کتنی بے بس ہے عورت چاہتے ہوئے بھی اپنے ماں باپ کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتی ان کی خدمت نہیں کرسکتی کاش !ایسا کوئی قانون ہوتا کہ بوڑھے ماں باپ بیٹیوں کے پاس آجاتے کاش !وہ انہیں اپنے پاس لا سکتی ،یہ سوچ اور اس کے آنسو کی دھارا بہتے چلے گئے وہ کب سوئی اسے اندازہ نہیں ہوا ۔

اسے آئے دوہی دن ہوئے تھے کہ صبح بھائی نے ماں کے انتقال کی خبر دی ماں رات واش روم میں گر گئیں واش بیسن سے بری طرح سر ٹکرانے پر وہ وہیں گر گئیں خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے ان کاانتقال ہوگیا ،صبح جب ان کے کمرے میں گئے تو انہیں کمرے میں نہ پا کر انہیں واش روم میں مردہ حالت میں پایا ۔۔۔۔وہ دھاڑیں مار مار کرروئی اس پر وحشت طاری ہونے لگی اس کا دل چاہا کہ وہ اپنے شوہر سمیت اس پورے معاشرے کا منہ نوچ لے ۔
۔۔کاش!کاش وہ ایسا کر پاتی اس بے حس معاشرے کو چیخ چیخ کر بتاتی اس کی ماں کی موت ایک قتل ہے جس کا ذمہ دار یہ پورا معاشرہ ہے ۔جو بوڈھے اور ضعیف ماں باپ کو بیٹی کے گھر رہنا گناہ سمجھتا ہے۔۔۔۔۔وہ گلا بھاڑ بھاڑ کرروئی اسے کتنی بڑی نعمت سے محروم کردیاگیا۔
یہ کتنا بڑا المیہ ہے ۔۔۔۔۔یہ لمحہ فکریہ ہے !!!
آنسوؤں کی ایک لہر اس کی زندگی کے دکھ بھرے نقوش اپنے ساتھ بہا لے گئ ۔۔۔۔۔۔جیسے لہریں دبیز ریت پر اس کے نقش پا !!

Browse More Urdu Literature Articles