Faqeeran - Article No. 2576

Faqeeran

فقیرن - تحریر نمبر 2576

اس نے مجھے معاف کیا تھا وہ مجھے معاف کر رہی تھی ، دل پاؤں تلے روند کر بھی میرے دل کا مان اسنے رکھ لیا تھا امید کا سرا تھما دیا تھا ۔۔،

حفصہ انور ہفتہ 1 جنوری 2022

آج محسوس ہوا جیسے ۔۔!!
دروازہ کھول دیا گیا ہو ۔۔۔!!j
اجازت دے دی گئی ہو ۔۔۔!!
کانوں میں حرف نما سر گوشیاں مکمل حصار میں لے چکی ہوں ۔۔!!
آج شائد ایک لمبی تھکن کے بعد بولنے کا دن تھا ، آج شائد وقت کا ماضی کے پنوں سے الجھنے اور پھر سارے دھاگوں کے سلجھنے کا دن تھا ، وہ بولتا گیا اور میری سماعت لمحہ لمحہ سمٹتی گئی ۔
۔،
آخری رات آپا جب میں بستر پر نیم دراز تھا ہمیشہ کی طرح میں نے اسکے نمبر پر ایک ٹیکسٹ چھوڑا ،
کیا کر رہی ہو ؟
ہمیشہ کی طرح پرانی اچھی عادت ، وہ مجھے کبھی انتظار نہیں کرواتی تھی ، جھٹ سے جواب آیا ۔۔،
صبح دس بجے کے قریب ناران جانے کا ارادہ ہے تو بس پیکنگ کر رہی ہوں ،
حسب معمول ایک دو باتوں کے بات رابطہ ٹوٹ جاتا تھا شائد وہ حد سے زیادہ خاموش ہو گئی تھی یا میرے الفاظ کسی کی سسکیوں میں الجھے مجھ سے ہی روٹھ چکے تھے ،
فون رکھتے ہی ایک خیال میرے آس پاس منڈلانے لگا تو پھر تہہ ہوگیا تھا میرا ناران اس سے پہلے جانا اسے وہیں وادیوں میں پھر سے پانا ان پہاڑوں میں کہانی کو پھر سے دہرانا جو بخت روٹھ چکا اسے پھر سے منانا تھا۔

(جاری ہے)

۔،
میں اپنے سفر کے مطابق گھر سے نکلا اسکی دی ہوئی چین جو پہلے پہل میری الماری کے کونے میں دبکی پڑی رہتی تھی وہ اب میرے دل کے قریب کہیں بہت پاس جڑی مجھ سے بندھی ہوئی تھی ۔۔، ڈارک براؤن جیکٹ میرا لکی کلر اسے میں ساتھ لینا کیسے بھول سکتا تھا آخر کو آج مجھے حق بخت کی اشد ضرورت تھی ،
میں ناران پوہنچا تو تقریباً ساڑھے دس کا ٹائم تھا،
اندازن وہ بھی اب تک انھی وادیوں کا حصہ بن چکی ہوگی ، یقیناً ہوائوں نے جھوم کر اسے خوش آمدید کہا ہوگا۔
۔۔،
مسلہ یہ بھی تھا کہ میں اسے سرپرائز دینا چاہتا تھا اور اب اتنی ساری لڑکیوں میں اسے کہاں ڈھونڈوں ، اتنا تو میں جان گیا تھا گزرے چار سالوں میں کہ وہ عبایا اوڑھے بغیر گھر سے نکلا نہیں کرتی ،
سو مجھے عبائے میں موجود وہاں ہر لڑکی کو دیکھنا پڑنا تھا ، سورج ڈھل جاتا تو میری قسمت بھی ڈھل جاتی مجھے اسے غروب و زوال سے پہلے کھوجنا تھا ،
در در ڈھونڈتا بٹھکتا اور کہیں اندر سے ان وادیوں کے سحر سے خوف زدہ بھی تھا میں خود کھو گیا تو اسے کہاں تلاش پاؤں گا ۔
۔،
تھک ہار کے میں نے اس کے نمبر پر ٹیکسٹ کیا ۔۔!!
کہاں ہو ؟
بس ۔۔!! چند گھنٹوں میں ہی تھک گئے؟
حیرانی حد سے سوا تھی اور اگلے میسج پر تو شائد میں بھی برف کے پہاڑوں کا منجمد سا حصہ بن گیا تھا ۔۔۔،
اور ڈارک براؤن جیکٹ اس کلر کی جان اب بھی نہیں چھوڑی تم نے ۔۔، یقیناً آج بھی الماری براؤن رنگوں سے ہی سجا رکھی ہو گی ۔۔،
میں دیوانہ وار اپنے ارد گرد دیکھنے لگا ہزار چہرے ہزار لوگ ان سب میں وہ کہاں ؟
سانسوں کی رفتار زیادہ تھی یا میرے قدموں کی ، شائد انداز نا ممکن تھا ، ڈوبتی پھنسی سانسوں میں خون کی تیز گردش میں ذہن کے پردوں میں بس یہی بات مرکز بنی رہی ۔
۔۔،
وہ آج بھی مجھ تک مجھ سے پہلے رسائی پا گئی میری محبت آج بھی اسکی خوشبو پہچان پانے سے قاصر تھی ، کیسا انتقام تھا وہ نفرت میں آگے تھی محبت میں اول تھی ہجر میں صابر تھی اور میں کہاں تھا ۔۔؟؟
میں اسے پھر سے ٹیکسٹ کیا ۔۔!!
نظر آو خدارا میرے سامنے تو آو یوں میری بات سنے بغیر اوجھل نا ہو جانا وہی کئی بار کی گئی منت میں نے پھر سے دہرائی ۔
۔!!
اور ایک عرصے بعد میں نے اسکی کھلکھلاہٹ سنی تھی وہ شائد ہنسی تھی کہیں اندر تک نمی میں گھلتی ہنسی جیسی ،
ارے یہ کون منت کر رہا ہے کسی فقیرن کی ؟
جس کو خالی ہاتھ کبھی سفر پہ بھیج دیا تھا جب تم نے ہم دونوں کے بیچ ایک آری ترچھی لکیر کھینچ دی تھی ۔۔۔، جب موسم ابر آلود تھا لیکن مٹی میں کھینچی گئی وہ لکیر اتنی گہری تھی کہ اسے آس پاس اڑتی دھول اسے مٹا نہیں پا رہی تھی ۔
۔۔، فقیرن کو حکم ہوا تھا لکیر سے آگے قدم نہیں بڑھانا بس واپس پلٹ جانا ہے ۔۔،
تب وہ لکیر مجھے دو حصوں میں بانٹ رہی تھی میرا دل ہتھیلی میں تھامے تم دنیا نما جنگل میں گم ہورہے تھے ۔۔۔، خوابوں کا وہ دیا جسے ہتھیلی کے حصار سے بجھنے سے بچا لینا تھا تم نے وہ اپنے فیصلوں سے ہی بجھا دیا تھا۔۔۔،
اور آج ۔۔۔؟؟
کوئی مجھ سے نظر آجانے کی ضد لگا رہا ہے ؟
اگر مجھے نا ملی تو دیکھ لینا انھیں وادیوں میں میری قبر بنے گی ۔
۔۔!!
وہ کہنے لگی جس نے میری محبت کا مقبرہ اپنے ہاتھوں سے بنایا ہو وہ یہاں خود مقبرہ بن جاۓ تو نا حق تو نہیں گا ، قرض تو سب چکاتے ہیں نا ۔۔۔!!
کیا کبھی سنا نہیں تم نے محبتوں کے قرض جان لیوا ہی ہوتے ہیں ۔۔!!
میں جانتا تھا وہ اتنی ظالم نہیں تھی یہ بے حسی میری عطا تھی ، وہ تو معصوم تھی محبتوں میں گوندھی ۔۔۔، یہ تلخی تو میری دی گئی تھی جو اسکی ذات میں کسی پختہ جڑ کی طرح بس چکی تھی ۔
۔۔،
آخر اسے مجھ پر رحم آہی گیا ۔۔،
کہنے لگی اوپر کی جانب دیکھو پل کی ریلنگ سے تمہاری سمت جھکی لڑکی ادھر ہے فقیرن ۔۔، جو تمہاری منتظر تھی جس کے تم منتظر ہو ۔۔،!!
سانسوں کو ترتیب دیتا اور منظر کی دھندلاہٹ کو کف سے مٹاتا میں اسکی جانب اور وہ میری جانب بڑھتی رہی ۔۔،
کچھ فاصلے پہ کھڑے وہ مجھے دیکھ رہی تھی ، میں نے وہاں برف سے دل بنایا تھا معافی کا انداز اپنایا تھا ۔
۔۔،
یقین تھا اسکی انگلیوں کے پور برف پہ بنے دل پر لہر کی مانند رقص کریں گے مگر شائد آج فیصلے کا دن تھا آج انتقام کا دن تھا ۔۔۔، اسنے محبت سے بنے دل کو پیروں سے کچل دیا اور میری جانب بڑھتی رہی ۔۔۔،
میں شل تھا اپنی جگہ کیونکے آج اسکے بولنے کا دن آج اسکے فیصلوں نے فاصلہ متعین کرنا تھا ۔۔۔،
وہ مجھ سے رخ موڑ چکی تھی ۔۔۔، بتایا نا وہ معصوم تھی محبت سے محبت نا ہونے کا جھوٹ میری جانب دیکھ کر کیسے بول سکتی تھی ۔
۔!!
کہیں اندر ڈرا دل خوش فہم ہو رہا تھا ۔۔۔،
پھر اسنے بولنا شروع کیا ۔۔،
مجھے نفرت ہے ان لوگوں سے جو امید کے دیے تھما کر خود ہی بجھا جاتے ہیں ۔۔، جو پہلے تو محبت کے قصیدے پڑھواتے ہیں عہدوں کو موتی کی مالا میں پروتے ہیں جب دنیا محبت کا تماشہ دیکھ لیتی ہے تو اسی محبت پر تھوک جاتے ہیں ۔۔۔،
بولتے بولتے اسنے میرے ہاتھوں میں سیاہ فائل تھما دی تھی ۔
۔، تم نے مجھے اس دن خالی ہاتھ لٹایا تھا نا تم نے مجھے بے سرو سامان چھوڑا تھا نا لو دیکھو آج تمہاری فقیرن تمھیں خالی ہاتھ نہیں بھیج رہی یہ تمام عمر تمھیں مجھ میں الجھنے سے بعض رکھے گا ، دیکھنا جس محبت کو محبت نے محبت کی بددعا دی تھی یہ جب پوری ہوئی تو سب اداس ہوگیا ،
وہ روتے روتے ہنستی اور پھر رونے لگ جاتی ، روتے روتے کہنے لگی مجھے تم سے محبت ہے ، فقیرن کو اپنی محبت سے فقط محبت ہے ۔
۔، مگر یہ سیاہ فائل ایک ایسی حقیقت ہے جس سے منہ موڑنا میرے بس میں نہیں ہے ۔۔،
اس نے مجھے معاف کیا تھا وہ مجھے معاف کر رہی تھی ، دل پاؤں تلے روند کر بھی میرے دل کا مان اسنے رکھ لیا تھا امید کا سرا تھما دیا تھا ۔۔،
وہ مجھے معاف کرتے کرتے واپس کیوں پلٹ رہی تھی اسکے قدم پیچھے کی جانب کیوں بڑھ رہے تھے ؟
میں سمجھنے سے قاصر تھا ،
وہ فائل میرے ہاتھ میں تھما گئی اور شام کے ڈھلتے سائے میں دھندلی پڑنے لگی ۔
۔،
میں نے جھٹ سے فائل کے سارے پنے کھول لئے ایک ایک کر کے صفحے پلٹے اور ان صفحوں نے زندگی کی بچی امید و نوید بھی چھین لی ، جھٹ سے سارے پرندے شجر چھوڑ گے ہوا تھم گئی اور سانس منجمند کر دی گئی میرا وجود پتھر میں بدلتا جا رہا تھا اعصاب شل اور ہر چیز ساکن پڑ گئی تھی ۔۔،
میری محبت بیمار تھی وہ زندگی کی چند بکھری سانسیں لے رہی تھی یہ فائل کسی عجیب سے مرض کی تشخیص کر رہی تھی ۔
۔،
مرض سے نجات کے دن قریب تھے ۔۔،
فقط چند دن !
آپا ۔۔؟
اس کے بعد سے اب تک میں کیا چند دن گزر چکے ہیں ؟ آج تاریخ 30 ہی ہے نا ۔۔!!
میں اسکا علاج کروا لوں گا دیکھ لینا آپ ۔۔، وہ ٹھیک ہو جاۓ گی ۔۔۔!
کاش آپا اسے بتا پاتی کہ وہ چند دن سال پہلے ختم ہو گے تھے تاریخ پرانی ہی ہے مگر سال بدل چکا تھا۔۔!!

Browse More Urdu Literature Articles