Baat To Kuch Bhi Nehin Thi - Article No. 897

Baat To Kuch Bhi Nehin Thi

بات تو کچھ بھی نہیں‌ تھی - تحریر نمبر 897

کہ بات تو کچھ بھی نہیں تھی مگر پتہ نہیں اس کو شاید الحام جو جاتے تھے۔ بھلا سیدھی سادھی گھریلو عورتوں کو بھی الحام ہوتے ہیں۔! چمٹ گئی آسیب کی طرح اس کی محبت مجھے۔ بہت دلکش انداز میں مسکراتے ہوئے میں نے فریم میں لگی اپنی شادی کی تصویر کو چھواء۔، تھی خوبصورت۔!

پیر 25 مئی 2015

بات تو کچھ بھی نہیں تھی اس کو شاید ایسے ہی چلے جانا تھا ۔ہاں۔۔ شاید۔۔! ایسے ہی چلے جانا تھا ۔ مگر کیا پتہ وہ سچ ہی کہتی تھی۔ ہاں۔۔شاید۔۔! وہ سچ ہی کہتی تھی لیکن ۔۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ ؟ ہاں۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟ مگر ایسا ہو بھی تو سکتا ہے ہو سکتا ہے مگر شاید ۔۔یہ قدرتی عمل ہو۔۔یقینا یہ قدرتی عمل ہی ہو سکتا ہے ۔ مگر شاید ۔
۔! یہ قدرتی عمل نہ بھی ہو۔ شاید اسے الہام ہو جاتا تھا۔! مگر الہام کیسے ہو سکتاہے اس بارے۔۔؟ یا پھر، وہ کوئی قبولیت کا لمحہ تھا۔! بھئی ہم بہت سی باتیں کہہ جاتے ہیں نا، اور وہ پوری بھی ہو جاتی ہیں۔ ہو سکتا ہے ، قدرت نے یا قسمت نے، یا پتہ نہیں کیسے اس کے منہ سے یہ ایک جملہ ادا ہوا اور وہ پورا ہو گیا۔سچ کہتی تھی کہ اس کی محبت آسیب کی طرح مجھے چمٹ جائے گی اور ایسا ہی ہوا۔

(جاری ہے)

میں تو خود آسیب ہو گیا ہوں۔ بھلا کتنے برس ہوئے ہوں گے کہ میں نیند کی دوائی کے بغیر سو نہیں سکتا۔ وہ انگلیوں پہ گزرے برس کھوجنے لگا۔ 7برس ۔؟ نہیں نہیں۔ شاید 9 ۔! دو برس تو میں سوہی نہ پایا تھا ڈھنگ سے اس نے اپنی میز پر پڑی نیند کی گولیوں والی شیشی اٹھائی۔
اب آپ کی دوا بدل رہا ہوں۔ اس سے بہت گہری نیند آئے گی۔ ایک خاص عرصے تک اگر نیند کی دوائیاں استعمال کریں تویاداشت کھونے لگتی ہے آہستہ آہستہ ۔
۔ اور دوائیاں بھی اثر چھوڑ جاتی ہیں۔کسی بھی صورت ایک سے زیادہ مت کھائیے گا۔ ڈاکٹر نے نسخے پر اپنی اسٹیمپ لگاتے ہوئے اگلے مریض کے لئے گھنٹی بجا دی تھی۔
کمال ہے، ڈاکٹر کہتا ہے کہ یاداشت ختم ہو جاتی ہے مگر مجھے تو وہ سب بھی یاد آنے لگا ہے جو کبھی اس کی زندگی میں سوچا ہی نہیں تھا۔ تعجب ہے۔! ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ دوپہرکاکھایا کھانا بھول جاتا ہوں اگر یہ سوچوں کہ اس وقت قمیض کونسی پہنی ہے تو بھی یاد کہاں مجھے آنا ہے دیکھے بغیر۔
۔۔ مگر پچھلی باتیں جن پر دھیان نہیں دیتا وہ کیسے یاد رہ گئیں ہیں تعجب ہے ناداشتہ طور پر اس نے اپنی قمیض کو دیکھا۔ ہاں ! ہاں نیلی ہی ہے ، مگر نواز کو میں شاید وہ ہلکی گلابی قمیض کا کہاتھا۔۔!بھول گیا ہو گا۔
بے آواز چلتے ٹی وی کو دیکھ کر میں نے ریموٹ ڈھونڈنے کے لئے کمرے میں چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ اب یہ کہاں رکھ دیا کم بخت نواز نے۔
بس کل اس کو فارغ کردوں گا میں۔ یہ رہا۔ روز نامچے کے نیچے سے ریموٹ نکال کر وہ خود ہی ہنس پڑا۔۔!
ہاں تو میں کہہ رہا تھا، روز نامچے میں آج کا دن قلم بند کرتے ہوئے اس نے پچھلی سطروں پر نگاہ دوڑائی۔
کہ بات تو کچھ بھی نہیں تھی مگر پتہ نہیں اس کو شاید الحام جو جاتے تھے۔ بھلا سیدھی سادھی گھریلو عورتوں کو بھی الحام ہوتے ہیں۔! چمٹ گئی آسیب کی طرح اس کی محبت مجھے۔
بہت دلکش انداز میں مسکراتے ہوئے میں نے فریم میں لگی اپنی شادی کی تصویر کو چھواء۔، تھی خوبصورت۔!
عام سے نین نقش والی انور بیگم جب بیاہ کر یہاں آئی تھی تو آتے ہی دو کمروں والے مکان کو گھر میں بدل دیا تھا۔ گھر کے ساتھ ساتھ اس نے رشید اکرم کی یعنی میری زندگی کی ترتیب بھی سنوار دی تھی۔ عام سا رشید اکرم سارے محلے میں ایک دم معزز ہو گیا تھا۔
کلف لگے بے داغ کپڑے پہنے چمڑے کا بیگ نماپرس لئے جب میں موٹر سائیکل پر گھر سے نکلتا تو انور بیگم کا سلیقہ دور سے ہی اپنا ڈھنڈورا پیٹنے لگتا۔ سادہ اور خوش باش طبعیت والے رشید اکرم کے کھانے کا ڈبہ جب لنچ ٹائم پر کھلتا تو ہر کوئی اپنا ڈبہ لئے میرے میز پر آن دھمکتا اور مل بانٹ کر کھانے کے کہتے کہتے اس کا سارا کھانا منٹوں میں ختم ہو جاتا۔

ازدواجی زندگی کے بیس سال بس یوں کٹ گئے کہ جیسے انہیں پر لگے ہوں عجیب عورت تھی انور بیگم بھی۔ ماں بنی تب بھی سلیقہ طریقہ ہاتھ سے نہ چھوٹا ۔ اسپتالوں کے چکروں کا سوچ سوچ کر ہولنے والا میں عام سا بندہ ایک دن گھر آیا تو انور بیگم کے پہلو میں گوری سی منی کو دیکھ کر ٹھٹک کیا۔!
وہ ۔۔یہ ۔۔۔کیسے؟ کے سوال اس کے منہ پر آتے آتے ہوا ہی ہو گئے ۔
یہ آج کل تو اسپتالوں کے بغیر بچہ نہیں ہوتا انور بیگم !!! میں خوش کم اور حیرت زدہ زیادہ تھا۔
ارے ہو جاتے ہیں۔ ہمسائی یخنی گرم کرنے آئی تھی۔ بڑی ہمت والی عورت ہے بھیا تمہاری۔۔! کل سے دردیں لگیں ہوئیں تھیں تم کو بھی نہ بتایا۔ آج بھی گھر کے کام نپٹاتی رہی کہ اسپتال گئے تو کوئی گھر آکر یہ نہ کہہ دے کہ کیسا گندا سندا گھر چھوڑ گئی تھی۔
اتنے میں وقت ہی نہ رہا۔ یہ دوگلیاں چھوڑ کر تو نذیراں دائی رہتی ہے مجھے آواز دی تو میں نے جھٹ بلوالیا۔۔!
ارے اب منہ ہی دیکھتے رہو گے کہ بچی بھی اٹھاو گے۔ ہمسائی میرے ہونق بنے منہ کو دیکھتے ہوئے منہ پر دوپٹہ رکھ کر ہنسنے لگی۔
ہاں ۔۔ہاں۔ ! میں نے زرد ہوتی انور بیگم کی شک سے دیکھتے ہوئے ننھی سی صائمہ کو گود میں اٹھا لیا۔سوائے ان اٹھ دس دنوں کے پھرمیں یعنی رشید اکرم نے انور بیگم کو دن کے وقت چار پائی پر پڑے نہ پایا تھا۔

صائمہ کو سولہواں لگا تو انور بیگم نے میرے ہی بھانجے سے اس کو بیاہنے کی ٹھانی۔
ابھی تو چھوٹی ہے۔ ! رشید اکرم نے صائمہ کی کمر تک آتی لمبی چوٹی کو دیکھ کر کہا ۔․
رشید صاحب۔۔ سولہواں لگ گیا ہے کوئی دن تاریخ لے لیں اب عابدہ باجی سے ۔ ! انور بیگم نے حتمی بات کی مگر یہ سب کیسے ہوگا۔؟ یہ بیٹھے بٹھائے کیا سوجھی بھلا انور بیگم۔
رشید اکرم ہاتھ میں رکھا نوالہ واپس رکھ چکا تھا۔کتنی بار کہا ہے کہ روٹی بیچ میں مت چھوڑا کریں ناشکری ہوتی ہے انور بیگم نے بار ہا کہی بات دوہرائی۔
اچھا اچھا۔رشید اکرم نے جھٹ نوالہ اٹھا لیا۔
جتنی ضروری تیاری تھی میں نے کر لی۔! تکیوں میں بھرنے ولی امریکن روئی کے بادل کمرے سے ملحقہ سٹور میں رکھتے ہوئے وہ عام سے لہجے میں کہنے لگی۔

یوں دو ماہ میں صائمہ اپنے گھر کی ہوئی ۔ آج برسوں بعد رشید اکرم نے اسی تشکر بھری نگاہ سے انور بیگم کو دیکھا تھا۔ جس نگاہ سے صائمہ کی پیدائش پر اس نے دیکھا تھا۔
آج کوئی اپنے دل کی بات ہی کہہ دو مجھ سے۔ پتہ نہیں کیوں رشید اکرم نے انور بیگم کو مخاطب کر لیا تھا۔ آج ہی تو بیٹی وِدا ہوئی تھی۔ دونوں ہی اپنی آنکھوں کی نمی ایک دوسرے سے چھپا رہے تھے۔

تم کہہ دو۔! انور بیگم کی آواز بھیگی ہوئی تھی۔
میں بس یہ کہوں گا کہ تم نے میری زندگی کتنی آسان کر دی ہے۔ کس قدر اچھی عورت ہو تم کبھی بھی کسی بھی طرح تم مجھے تنگ نہیں کرتی آج میرا دل چاہتا ہے کہ تم مجھ سے کچھ مانگو۔۱ میں ساری دنیا لا دینے پر تو قادر نہیں مگر جی چاہتا ہے کہ تم مجھ سے کچھ مانگو۔۔۔!
ایک وعدہ مانگوں گی اور ایک التجا دوہراوٴں گی۔
!
انور بیگم ہولے ہولے بولی۔ اس کی آواز کانپ رہی تھی۔
ہاں ۔ کہو۔۔!
وعدہ یہ کہ تم مجھ سے پہلے نہیں مرو گے۔ کبھی نہیں۔ ! مجھے اکیلے پن سے بڑا خوف آئے گا۔۔!
رشید اکرم ہنس پڑا۔ جھلّی ، بے وقوف ! یہ تو رب کے کرنے ہیں وہ مانگ جو میرے اختیار میں ہو۔!
تو تم کس بات کے مجازی خدا ہو۔۔؟
انور بیگم رشید کو دیکھنے لگی۔

اچھا بابا۔۔ ! وعدہ نہیں مروں گا تم سے پہلے۔!
پکا وعدہ؟ انور بیگم کی آنکھوں میں بے پناہ چمک اُبھری تھی۔
اور وہ التجا۔۔؟ رشید اکرم نے انور بیگم سے استفار کیا۔
یاد ہے نا۔۔! میں تم کو کہتی تھی کہ مجھ سے بھلے جتنے بھی ناراض ہو۔۔! ہمیشہ مجھے معاف کر کے سونا دل میں میل رکھ کر نہ سونا۔
ہاں۔۔ہاں۔۔ یاد ہے۔ تو کبھی ناراض ہونے کا موقع بھی تو دے۔
! رشید اکرم سنتا چلا گیا تھا۔
دیکھو رشید اکرم۔۔! یہ بات یاد رکھنا۔ اگر بھی موقع آیا اور تم دل میں میل رکھ کر سو گئے نا توکیا پتہ اگلی صبح ہی نہ ہو میری۔۔ ! پھر اپنے دل کا میل صاف کرو گے؟ بتاوٴ۔؟ تمہارے بھلے کو ہی کہہ رہی ہوں! لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا ہے تم کو میری باتیں یاد نہیں رہتیں۔! آسیب بن جاوٴں گی مر کر تمہارے لئے ۔وہ کھوئی کھوئی آواز میں کہنے لگی۔

اچھا بابا۔! رشید اکرم دل ہی دل میں انور بیگم کے بھولپن پر دیر تک مسکراتا رہا۔
کیوں آگئی تھی وہ لڑکر گھر۔۔؟ رشید اکرم انور بیگم سے پوچھنے لگا۔
مارا تھا اسے رزاق نے۔!انور بیگم نے دوسری روٹی سینک کر رشید اکرم کی چینگیر میں رکھی۔
مارا تھا۔۔؟ اور ۔۔ تم مجھے اب بتا رہی ہو۔؟ اتنے آرام۔۔؟ تسلی سے؟ رشید اکرم نے نوالہ سامنے پڑی پلیٹ میں پٹخا۔

روٹی مت چھوڑو۔ ! اسی لئے کہا تھا کہ بعد میں بتاوٴں گئی۔ انور بیگم کے تسلی سے خشک آٹے کو دوسری چنگیر سے ڈھانپا۔
میں ابھی جاتا ہوں عابدہ باجی کی طرف۔ رشید اکرم غصے سے اُٹھا ۔
غلطی تمہاری اپنی بیٹی کی تھی رشید۔ !
انور بیگم چائے کا پانی چڑھانے لگی ۔۔۔
کہتی ہے چولہا الگ کردو۔۔!
رشید اکرم کے بڑھتے قدم رک گئے تھے وہ خاموشی سے واپس موڑھے پر بیٹھ گیا۔

میں خود ہی چھوڑ آئی تھی جا کر۔ نہیں تو بات بڑھ جاتی ۔ عابدہ نے بھی سمجھایا اور میرے اُسے خود واپس لے جانے پر خوش ہوئی ، چار بہووٴں کا بکھیڑا تھا۔مگر صائمہ کے لئے کر دیا چولہا الگ، اس لئے بات ختم ہو گئی۔
روٹی نہیں کھانی۔ اٹھا لو ، بس چائے دے دو۔۔۔!رشید اکرم بجھ سا گیا تھا۔
انور بیگم نے بڑے غور سے پلیٹ میں پڑے نوالے کو دیکھا اور برتن اٹھا لیے۔

کچھ دن کیلئے بُلا لو اسے یہاں ۔۔ دل بہل جائے گا۔۔! کافی دیر سے گم صم بیٹھے رشید اکرم کے منہ سے آواز آئی۔
دل گھر میں ہی لگا رہے تو بہتر ہے ابھی وہیں رہنے دو میاں بیوی کی صلح ہو جائے تو دو چار دن کو لے آوٴں گی۔
موسم بدلنے والا تھا انور بیگم رشید اکرم کے سویٹروں کے ڈھیلے بٹن پکے کر رہی تھی۔
رشید اکرم نے گلے سے بھری ایک نظر انور بیگم پر ڈالی تھی اور چپ چاپ لیٹ گیا تھا۔

انور بیگم نے اگلی صبح کا چہرہ نہ دیکھا تھا چپ چاپ وہ نیند میں ہی دنیا کا دروازہ پار کر گئی تھی۔
نہیں ، نہیں۔۔ وہ کسی ولی یا عنائیت کے عہدے پر فائز تھوڑی ہی تھی۔ بس ایسے ہی کہہ دیا ہو گا۔ ہاں اس دوائی میں کافی اثر ہے رشید اکرم کی آنکھیں بند ہو رہی تھی۔ یعنی ہو جاتا ہے کہ کبھی منہ سے نکلی بات پوری ہوجاتی ہے۔ اسے الحام نہیں ہوتے تھے میں جانتا ہوں ۔
رشید اکرم گہری نیند میں بھی یہی بڑ بڑاتا رہا تھا۔میں نے زندگی میں اسے سب کچھ دیا بس یہی ایک بات تھی نا ۔ تو کوئی بات نہیں ۔ یہ کوئی ایسی التجا تھوڑی ہی تھی ۔ بندہ بشر ہوں فرشتہ تو نہیں ،آجاتا ہے غصہ تو پھر کیا ہوا۔ بات تو کچھ بھی نہیں تھی اس کو شاید ایسے ہی چلے جانا تھا ہاں۔۔ شاید۔۔! ایسے ہی چلے جانا تھا ۔ مگر کیا پتہ وہ سچ ہی کہتی تھی۔
ہاں۔۔شاید۔۔! وہ سچ ہی کہتی تھی لیکن ۔۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ ؟ ہاں۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟ مگر ایسا ہو بھی تو سکتا ہے ہو سکتا ہے مگر شاید ۔۔یہ قدرتی عمل ہو۔۔یقینا یہ قدرتی عمل ہی ہو سکتا ہے ۔ مگر شاید ۔۔! یہ قدرتی عمل نہ بھی ہو۔ شاید اسے الہام ہو جاتا تھا۔! مگر الہام کیسے ہو سکتاہے اس بارے۔۔؟ یا پھر، وہ کوئی قبولیت کا لمحہ تھا ۔۔۔ ویسے بات تو کچھ بھی نہیں تھی۔۔۔۔۔!

Browse More Urdu Literature Articles