Be Naam Si Zindagi 3 - Article No. 949

Be Naam Si Zindagi 3

بے نام سی زندگی ۔ حصہ سوم - تحریر نمبر 949

نہ جانے کہاں چلا گیا ہے؟کوئی فون کال نہیں کوئی میسج نہیں؟آخر وہ گیا کہاں؟ڈرائنگ روم کے دروازے کے پاس کھڑے اشرف صاحب کا غصہ آسماں کی ساتویں حد پار کر گیا تھا۔

ہفتہ 29 اگست 2015

خدیجہ مغل:
نہ جانے کہاں چلا گیا ہے؟کوئی فون کال نہیں کوئی میسج نہیں؟آخر وہ گیا کہاں؟ڈرائنگ روم کے دروازے کے پاس کھڑے اشرف صاحب کا غصہ آسماں کی ساتویں حد پار کر گیا تھا۔
آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟جہاں بھی گیا ہو گا واپس آجائے۔صدیقہ انہیں حوصلہ دے رہی تھیں اور وہ۔۔۔۔
تم جانتی ہو نا وہ پاکستان آچکا ہے۔
اسی نے مجھے کہا تھا کہ آپ مجھے پِک کرنے آئیں وہ تو قسمت خرا ب میری گاڑی کی جو وقت پہ کام نہ آئی میں نہ جا سکا اور میرا بیٹا گھر ہی نہیں آیا کیوں؟کیوں؟؟؟
آپ حوصلہ رکھیں خدا سب ٹھیک کرے گا۔کسی دوست سے ملنے چلا گیا ہو گا۔
باپ سے اب اتنی بھی کیا ناراضگی؟؟مجھے کال یا میسج تو کرے کم از کم میری کالز کا ہی جواب دے دے
آپ ٹرائی کرتے رہیں وہ ضرور بات کرے گا آپ سے۔

(جاری ہے)


دن میں کوئی ہزار بار ٹرائی کرتا ہوں اس کا نمبر ہی آف آرہا ہے۔اب میں کیا کروں ؟
پریشان کیوں ہوتے ہیں؟ابھی آپ آفس جائیں لیٹ ہورہے ہیں ۔
ایک نظر صدیقہ کو دیکھنے کے بعد وہ بیگ اٹھا کر باہر چلے گے۔
#۔۔۔۔#
ماروا پلیز مجھے معاف کردو میں ہی تمھارا گناہ گار ہوں۔معافی چاہتا ہوں اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے
اب ماروا کو ان آنسوؤں سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا
ماروا پلیز مجھے چھوڑ دو تم جو کہتی ہو میں مانتا ہوں لیکن مجھے۔
۔۔۔
پٹاخ۔۔۔چپ نہیں رہا جاتا تم سے؟ کب سے بے فضو ل ہی بولے جا رہے ہو
ماروا کا تھپڑ کھانے سے وہ کچھ دیر کے لیے چپ ہوا تھا تم شاید پیار کی زبان سمجھتے ہی نہیں۔
اب بولو تمھارے ساتھ کیا کیا جائے؟وہ اسکے سامنے بیٹھ گئی تھی وہ اسے یک ٹک دیکھے گیا
مجھے کچھ نہیں۔۔۔؟بس تم مجھے معاف کردو
معافی تو اس خدا سے مانگو فی الحال میرے پاس تمھارے لیے معافی کی کوئی گنجائش نہیں
ماروا یوں نہ کرو۔
۔۔
تم مجھے مشورہ دے رہے ہو کہ مجھے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں؟اسے غصہ آیا
میرے ساتھ بحث مت کرو تمھارا بھی وہی حشر ہو گا جو فواد کا ہوا۔
وہ ایک پل کو حیران رہ گیا کہ اس نے فواد کے ساتھ کیا کیا ہے اور میرے ساتھ اب کیا کرنے والی ہے؟
کک۔۔۔کیا ہوا ہے فواد کے ساتھ۔۔۔؟
جاننا چاہتے ہو؟ایک ٹانگ پہ دوسری ٹانگ چڑھاتے ہوئے بولی
ہاں۔
۔۔
سوچ لو۔۔۔
دیکھو تم یہ ٹھیک نہیں کر رہی۔۔۔؟میں پولیس میں جاؤں گا تمھارے خلاف الٹا کیس ہو جائے گا
اور جو تم نے میرے ساتھ کیا کیا وہ ٹھیک تھا؟میرا بھی حق بنتا ہے کہ میں بھی پولیس میں جا کر تمھارے خلاف کیس کرواؤں۔وہ چلائی تھی
اور رہی پولیس میں جانے کی بات تم یہاں سے ٹھیک نکلو گئے تو مجھے بتانا۔اس نیک شریف کام کے لیے میری مدد بھی لے لینا
تم مجھے کچھ نہیں کرسکتی۔

کیوں۔۔۔کیوں نہیں کرسکتی۔۔۔؟اگر تم لوگ اتناکچھ کر سکتے ہو تو سوچو میں کیا کرسکتی ہوں؟قاتل ہو تم میرے۔اس کے ثبوت بھی ہیں میرے پاس اگر تم چاہو تو دیکھا بھی سکتی ہوں ۔
جب تم دونوں میرے ساتھ اتنا برا کر سکتے ہو تو کیا میرا اتنا بھی حق نہیں کہ میں تم سے بدلہ ہی لے لوں۔
شرارت تھی نہ وہ۔۔؟تو اب اس شرارت کی سزا پاؤ کہہ کر وہ کمرے سے باہر چلی گئی تھی اور وہ یوں منہ سا لے کر بیٹھ گیا۔

اس کے کیے کی سزا اسے اتنی بھیانک ہو گی اس نے کبھی سوچا نہ تھا۔
#۔۔۔۔۔#
مس ماروا آپ نے ریزائنگ کیوں دے دیا؟کیا آپکو اس جاب سے کوئی پرابلم تھی؟
اسوقت وہ نیوز ایجنٹ کے آفس میں منیجر وہاب کے سامنے بیٹھی تھی ۔جو اس کا ریزائنگ دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ماروا اس ادارے کی سب سے پرانی اور سب سے بہادر لڑکی تھی اور اس کا یوں چلے جانے کا سوچ کر وہ چپ کے چپ رہ گئے۔

سوری سر میں یہ جاب نہیں کرسکتی،کافی مشکل آرہی ہیں میرے لیے میری اسٹڈی کا حرج ہو رہا ہے ۔
پھر بھی آپ خوب سوچ سمجھ لیں۔
سر آپ جانتے ہیں میں ہر کام سوچ سمجھ کر ہی کرتی ہوں۔اس نے تیزی سے جواب دیا
اوکے۔ہم آپکے واپس آنے کا انتظار کریں گئے
انتظار۔۔۔۔؟لیکن کیوں؟
آپکے لیے ہمارے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں آپ جب مرضی آئیں ہمیں منظور ہو گا۔

تھینکس ۔کہہ کر وہ اٹھ گئی ۔اب اس کا یہاں کچھ بھی نہیں تھاآنسوؤں کو روکتے ہوئے وہ گھر آپہنچی لیکن کب تک وہ اپنے آپکو کنٹرول کرتی ؟
بیڈ پہ لیٹتے وہ پھوٹ پھوٹ کررو دی۔نہ جانے کیوں وہ بکھرتی ہی چلی جا رہی تھی ۔اسے کسی اپنے کی تلاش تھی جو اسے بے حد پیار کرتا اس کا خیال رکھتا لیکن ایسا کوئی بھی نہیں تھا جو اسے سینے سے لگاتا ڈھیر سارا پیار کرتا۔

معاذ کا چہرہ تو کہیں بہت دور ہو گیا تھا اسکی نظروں سے۔
#۔۔۔۔#
کلا س ختم ہونے کے بعد وہ خاموشی سے باہر آگئی ہولے ہولے قدم اٹھاتی ہوئی وہ گراؤنڈ کی جانب بڑھ رہی تھی جب اسے پیچھے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی اس نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا
ماروا۔۔۔
یہ آواز وہ کبھی بھول ہی نہیں سکتی تھی۔وہ آواز سن کر رکی نہیں تھی بلکہ اب تیز تیز قدموں سے چلنے لگی تھی
ماروا رک جاؤ۔
۔۔۔آواز ایک بار پھر آئی
ماروا کو اب اس آواز سے کیا لینا دینا؟
کیا ہو گیا ہے ماروا ۔۔۔؟تم میری بات کیوں نہیں سن رہی ہو؟اب وہ اسکے سامنے آن پہنچا تھا وہ رک گئی تھی
جانے دو مجھے۔
مجھے میرے سوال کا جواب دو؟
میں نے کہا مجھے جانے دو۔یہاں تماشا مت بناؤ میرا۔ہولے سے بولی لیکن اسے اسکی بات کا اثر نہ ہوا
تم جب سے فواد سے ملی ہو مجھے اگنور کیوں کرتی چلی آرہی ہو کیوں؟کیوں؟
نیچی آواز میں بات کرو سمجھے۔

بتاؤ پھر۔اسے چپ دیکھ کر وہ ایک بار پھر بولا
یہ تم اپنے پیارے دوست سے ہی پوچھ لو تو زیادہ بہتر ہے۔وہ آگے بڑھی تھی
معاذ نے اسکی کلائی سے پکڑ کر اسے روک لیا تھا
ہاتھ چھوڑو میرا
کیوں؟
کیونکہ اب اس ماروا پہ تمھارا کوئی حق نہیں۔تمھاری ماروا مر چکی ہے۔جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر وہ آگے بڑھ گئی جبکہ وہ اسے جاتا دیکھتا رہ گیا۔

آج کے بعد ماروا کویونیورسٹی میں کسی نے نہ دیکھاتھا وہ کہاں گئی تھی؟کوئی نہ جانتا تھا۔معاذ کی تو گویا جان چھوٹ گئی تھی ۔
فائنل ائیر کے ایگزام سے فارغ ہو کر معاذ کی جلد ہی شادی ہوگئی اوروہ فواد کے دیے ہوئے ویزے پہ دوبئی جا چکا تھا۔
اور فواد خود ملائیشیا جا چکا تھا ان دونوں کی واپسی تین سال بعد تھی ان کی دوستی با لکل ویسی ہی تھی جیسے پہلے دن تھی ۔

وہ بھول گئے تھے کہ وہ جو کر کے جا رہے ہیں اسکی سزا انہیں ضرورملے گی۔اور بے حد ملے گئی جسکا نتیجہ بہت ہی بھیانک ہوگا۔
#۔۔۔۔۔#
بے بی کدھر ہے؟ابھی فریش نہیں ہوئی؟مسٹر عالم صاحب اخبار پرھنے میں مگن تھے جب نوکر نے ان کے سامنے ناشتہ رکھا تو انہیں اچانک ہی ماروا کا خیال آیا
بے بی صاحبہ کی طبیعت ٹھیک نہیں وہ ابھی سو رہی ہیں۔

کیا ہوا۔۔۔؟انہیں ماروا کی فکر ہوئی
بتا رہی تھیں سر میں درد ہے۔
دوا دی تم نے۔اخبار سائڈ پہ رکھتے ہوئے بولے
جی صاحب جی ابھی دے کر آرہا ہوں
گڈ۔جب وہ اٹھ جائے ٹائم پہ ناشتہ دے دینا اسے۔اور میرا بیگ گاڑی میں رکھ آؤ
جی صاحب جی۔کہہ کر نوکر بیگ اٹھا کر باہر چلا گیا
عالم صاحب کا شمار دنیا کے امیر ترین آدمیوں میں ہوتا ہے۔
انہوں نے کبھی لالچ نہیں کیا تھا یہی ان میں بڑی صفت ہے۔غریبوں پہ بہت رحم کرتے تھے ۔خدا نے انہیں سب کچھ دے رکھا تھاگھر میں نوکر چاکر تھے۔جو ان کی بہت عزت کرتے تھے ۔ان کی زندگی کا صرف ایک ہی اصول رہا ہے کہ
عزت کروانے کے لیے دوسروں کی عزت کرو دوسرے تمھارے قدموں میں آئیں گئے۔
ان کی ایک ہی بیٹی تھی اور ان کی بیوی بیٹی کی ولادت پہ وفات پا گئی انہیں بہت پیار تھا اپنی بیوی سے اور بیٹی سے اس سے کہیں زیادہ پیار کرتے تھے۔
وہ ہمیشہ یہی کہتے تھے ادیبہ کی جان میری بیٹی میں ہی ہے۔
اپنے باپ کے پیار نے مارا کو بگاڑا نہ تھا بلکہ وہ ایک اچھی بیٹی ثابت ہوئی تھی ۔
ناشتہ کرنے کے بعد وہ اٹھ کر آفس کی جانب بڑھ گئے وہ جانتے تھے آج ماروا گھر ہے اس لیے مجھے آج جلدی آنا ہو گا۔سوچتے ہوئے انہوں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور آگے بڑھ گئے۔
بے بی جی ناشتہ کرلیں۔نصیبہ اس کے لیے ناشتہ لے آئی تھی
نہیں ۔
۔مجھے ناشتہ نہیں کرنا
بے بی جی آپکی طبیعت ٹھیک نہیں آپ ناشتہ کرلیں ورنہ صاحب ناراض ہو جائیں گئے
اوکے ۔لاؤ۔
اس نے بے دلی سے ناشتہ کیا اور پھر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔
وہ اپنے آپ سے شرمندہ ہورہی تھی ۔پپا کو وہ کیا بتائے؟سب میری ہی تو غلطی ہے میں کیوں اسکی باتوں میں آگئی؟سب میری غلطی ہے۔وہ ایک بار پھر رو دی
وہ منظر اسکی آنکھوں سے جاتا ہی نہ تھا۔
وہ کیسے بھول جاتی کہ وہ اب کسی کے قابل نہیں
اس نے فیصلہ کر لیا تھا اسے کیا کرنا ہے؟اسے جینا تو تھا مرنے سے سارے مسئلے حل نہیں ہوتے۔
آج پپا کچھ جلدی ہی واپس آگئے تھے وہ خوش ہو گئی
نہ جانے کیوں پپا کے گلے لگتے وہ رو دی
عالم صاحب نے کبھی اپنی بے بی کی آنکھوں میں آنسو نہ دیکھے تھے لیکن آج۔۔۔۔؟
کچھ نہیں پپا۔۔۔
آج آپ میرے لیے جلدی واپس آگئے تو ۔
۔۔۔اس نے بہانہ بنا دیا
تو میری پیاری سی بیٹی جلدی سے تیار ہو جائے ہم اپنی بیٹی کو اچھی سی شاپنگ کرواتے ہیں
واؤ پپا۔۔۔آئی لو یو پپا۔وہ ایک بار پھر ان کے گلے لگ گئی
ایسی ہی خوشیاں تھیں اس گھر میں۔
ماروا جلد ہی تیار ہو کر نیچے آگئی اور پپا کے ساتھ شاپنگ کے لیے گیٹ سے باہر جاتے ہوئے اس نے ایک نظر نصیبہ کو دیکھا جو ان کی خوشیوں میں خوش تھی اور ہولے ہولے گیٹ بند کر رہی تھی۔

#۔۔۔۔۔#
آخر وہ ہے کہاں ۔زمیں کھا گئی یا آسماں پہ اٹھا لیا گیا ہے؟مجھے کوئی بتاتا کیوں نہیں؟وہ چلائے
ہم نے پوری کوشش کی ہے اس کے سب دوستوں سے پتہ کروایا ہے لیکن وہ وہاں نہیں گیا۔ہم کوشش کررہے ہیں جلد ہی مل جائے گا آپ پریشان نہ ہوں ۔فہد نے موؤ دبانہ انداز میں کہا
بیٹا ہے وہ میرا۔۔۔کیسے نہ پریشان ہوں میں؟
پریشانی سے ان کے سر میں شدید درد ہو رہا تھا۔

اتنے میں ان کے سیل کی ٹون بجی انہوں نے کال اٹینڈ کی دوسری جانب شاید کوئی انجان سی آواز تھی
گھبرانے کی ضرورت نہیں آپکا سپوت با لکل ٹھیک ہے۔
کک۔۔۔کون ہیں آپ ؟
کہاں ہے وہ۔۔۔؟علوی صاحب چیئر سے اٹھ کھڑے ہوئے
اتنی بھی کیا جلدی ہے؟آجائے گا واپس
بتاؤ تو وہ ہے کہاں اور آپ کون ہیں؟
یہ بھی بہت جلد جان جائیں گئے۔دوسری طرف سے آواز آئی
میرا بیٹا کہاں ہے؟وہ چلائے تھے لیکن ان کی آواز سننے سے پہلے ہی کال کاٹی جا چکی تھی۔
وہ غصے سے آگ بگولہ ہورہے تھے۔یہ سب کیا ہو رہا ہے ہمارے ساتھ؟وہ اپنا سر پکڑ کر چیئر پہ بیٹھ گئے۔

Browse More Urdu Literature Articles