Gardish Madar Star - Article No. 994

Gardish Madar Star

گردش۔مدار۔ سٹار - تحریر نمبر 994

کسے معلوم تھا کہ اکیس سال، سات مہینے اور گیارہ دن کے بعد اچانک تم کہیں سے آؤ گے اور ایک دم مجھ سے یہ پوچھ لو گے ”تم نے میری وجہ سے شادی نہیں کی؟“ اپنے پورے قد سے کھڑے آدھے بازوؤں والی شرٹ پہنے، کنپٹیوں پر سفیدی لیے تم ذرا نہیں بدلے تھے۔

پیر 25 جنوری 2016

عمار مسعود:
کسے معلوم تھا کہ اکیس سال، سات مہینے اور گیارہ دن کے بعد اچانک تم کہیں سے آؤ گے اور ایک دم مجھ سے یہ پوچھ لو گے ” تم نے میری وجہ سے شادی نہیں کی۔ ؟ “ اپنے پورے قد سے کھڑے آدھے بازوؤں والی شرٹ پہنے، کنپٹیوں پر سفیدی لیے تم ذرا نہیں بدلے تھے۔ اتنے برس بعد آئے اور آتے ہی مجھے کٹہرے میں کھڑا کردیا۔
سوال سے ہی لگتا تھاکہ جواب کا تمہیں علم ہے۔ تم تویہاں صرف اپنی حیرت مٹانے آئے ہو۔ خود کو اپنے بے قصور ہونے کا یقین دلانے آئے ہو۔ تم خود ہی سوچو میں کیسے تمہارے اس سوال کا جواب دے سکتی ہوں۔ میرے پاس برسوں کی گنتی کے سوا کچھ بھی نہیں اور تمہارا سوال کوئی حساب کا سوال تو ہے نہیں کہ ہندسے جوڑ کرجواب دے دیا جاتا۔ تمہارا سوال تو ستاروں کے میل کا تھا، قسمت کے کھیل کا تھا۔

(جاری ہے)


ستارے ہمیں بتائے بغیر ہماری زندگی کی بہت سی باتوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔ کس نے کس کے مدار میں رہنا ہے۔ کس کو کہاں سے روشنی ملے گی۔ کس کی کشش کا دائرہ کون سا ہے کس نے ٹوٹ جانا ہے، کس نے روشن رہنا ہے اور کس کی قسمت میں گردش لکھی ہے۔ ان سب فیصلوں کا اختیا ر ہمارے پاس نہیں ہوتا۔ صرف ستارے یہ حال جانتے ہیں۔ان میں ہمارا مشورہ بھی لازم نہیں ہوتا۔
ہماری خواہش کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ہم انجانے میں اپنے ستاروں کے کہے پر چلتے ہیں۔ بظاہر بہت سوچ کر اپنے لیے ایک راستہ چنتے ہیں۔ پوری ثابت قدمی سے اس پر گامزن رہتے ہیں۔ مگر سفر تو سارا ایک دائرے میں ہوتا ہے۔سمت کے تعین پر تو ہمارا اختیار نہیں ہوتا۔رفتار کی تبدیلی ہماری بساط میں نہیں ہوتی۔
تم کہہ رہے تھے کہ میں اتنے برسوں میں زیادہ نہیں بدلی۔
میں نے تمہیں غور سے دیکھا تو بدلے تم بھی نہیں تھے۔ وہی آواز، جس میں حکم جھلکتا تھا۔ وہی لمبا قد، جہاں سے میں تم کو چھوٹی سی دکھائی دیتی تھی۔ وہی بھرا بھرا چہرہ، روشن آنکھیں، چوڑی پیشانی، بالوں بھرے بازو اور سنہرا رنگ، سب کچھ وہی تھا۔ صرف وقت بدل گیا تھا۔ دو دہائیاں ہمارے بیچ میں کھڑی تھیں۔اکیس سال،سات مہینے اور گیارہ دن بہت عرصہ ہوتا ہے۔
اتنے عرصے تک کسی کو یاد رکھنا بہت مشکل کام ہے۔ یقین مانو میں اس سارے عرصے میں تم کو بھول جانا چاہتی تھی۔ اس سارے واقعے کوکم عمری کی حماقت قرار دینا چاہتی تھی۔ مگر بھول جانا میرے بس میں نہیں تھا۔ دائرے سے ٹوٹ جانا میرے لیے ممکن نہیں تھا۔
میں تمہیں کسی ندامت یا پشیمانی کے بار تلے نہیں لانا چاہتی۔ میں تو صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ ستاروں کے اپنے اپنے مقدر ہوتے ہیں۔
کچھ ایسے ہیں جو آزاد ہوتے ہیں، آزاد رہتے ہیں، کوئی کشش انہیں اپنے حصار میں نہیں لیتی۔ رک جانا انہیں آتاہی نہیں، یہ اگر کسی گرد ش میں بندھ بھی جائیں تو زیادہ عرصہ لگے بندھے راستے پر نہیں چل سکتے۔ انہیں ہر دفعہ ایک نئے سفر پر جانا ہوتا ہے۔ ایک نئے چاند کو مرکز بنانا ہوتا ہے اور کچھ بدنصیب ستارے ایسے بھی ہوتے ہیں جو تمام عمر ایک ہی دائرے میں گردش کرتے رہتے ہیں۔
ان کا محور ہی ان کی کائنات ہوتا ہے۔یہ ٹوٹ کر کہیں نہیں جاسکتے۔ انہیں کسی اور جہان کی تلاش نہیں ہوتی۔ ان کی گردش کے تمام فیصلے ان کے مرکز کی کشش میں پنہاں ہوتے ہیں۔
یاد ہے تم نے ایک دفعہ تاروں بھرے آسمان پر دو روشن ستاروں کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا”یہ ہم دونوں ہیں روشن روشن، پاس پاس، زمین پر جو بھی تبدیلی آئے آسمان کبھی ہمیں جدا نہیں کرے گا۔
میں ان برسوں میں ہر رات ان دو ستاروں کو سارے آسمان پر ڈھونڈھتی رہی۔ وہ دوستارے جنہیں روشن رہنا تھا، جو ساتھ ساتھ چمکتے تھے۔ شاید تم کو احساس نہ ہوا ہو، مگر اس رات کے بعد وہ ستارے پھر کبھی آسمان پر نہیں اترے۔ ہاں کبھی کبھی ایک ستارہ صبح سے پہلے آسمان کے کسی گوشے پر نمودار ہوتا تھا اور اجالے سے پہلے کہیں گم ہوجاتاتھا۔وہ تمہارا ستارہ تھا۔
ہربار نئے مقام سے طلوع ہوتا تھا مگرمیرے ستارے کو رات کا اندھیرانگل گیا تھا۔
تم ان دنوں کو یاد کررہے ہو تو یاد کرو جب ہم ملے تھے تو اس طرح روشنی ہوئی تھی جیسے دوستارے ٹکرا گئے ہوں۔ایک جھماکا ہوا تھا۔ دور دور تک نور پھیل گیا تھا۔ گھمسان کا رن پڑا تھا۔ سب کچھ تلپٹ ہوگیا تھاساری کائنات گردش میں دکھائی دیتی تھی۔ قریب آکر ہم دونوں ٹوٹ سے گئے تھے۔
مدار، کشش، گردش، سب کچھ بھول گئے تھے۔ ان لمحوں میں ہم ایک دوسرے میں ضم، روشنی کی دلیل بنے وقت سے آگے سفر کررہے تھے۔ جانے وہ کیا تھا، حادثہ یا اتفاق، زلزلہ یا معجزہ، آج تک کچھ خبر نہیں۔ ان دنوں میں، بس بے پناہ حدت کا احساس تھا۔ جیسے سب کچھ پگھل رہا تھا۔ ایک ستارہ دوسرے ستارے میں ڈھل رہا تھا۔
تمہیں پتہ ہے ہرستارے کی ساخت دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔
کچھ پربرف جمی رہتی ہے۔ کچھ مٹی کنکر کے بنے ہوتے ہیں۔ کہیں آگ جلتی رہتی ہے۔ کسی میں شگاف پڑے ہوتے ہیں۔ کہیں سانس نہیں آتا۔ کہیں زندگی کے آثار ملتے ہیں۔ کسی کے گرد نور کا ہالا ہوتا ہے اور کچھ ایسے ستارے بھی ہوتے ہیں جوجل کر راکھ ہوجاتے ہیں پھر بھی گردش میں رہتے ہیں۔
تمہیں ہمیشہ اس بات پر اصرار تھا کہ تم مجھ سے زیادہ محبت کرتے ہو۔
اتنے برسوں نے مجھے بھی یہی بتایا ہے کہ تمہارے اندر محبت کا جذبہ مجھ سے زیادہ ہے۔ ایک شخص، ایک مدار، ایک ستارہ، تم کو راس آہی نہیں سکتا۔ قیام تمہارے ستارے کی سرشت میں ہی نہیں۔ میں مانتی ہوں کہ تم نے مجھے ٹوٹ کر چاہا۔ مگر پھر تم کسی اور کہکشاں میں چلے گئے اور میں اپنے بکھرے ذروں کی پوٹلی سمیٹے روشنی سے الگ ہوکر بیٹھ گئی۔ مجھے اس وقت بھی علم تھاکہ دمکنا تمہارا مقدر ہے۔
جلنا میری قسمت۔
تم جہاں کھڑے ہو میں نے بیس سال اس سکول میں ملازمت کی ہے۔ تمہیں معلوم نہیں یہ ملازمت کیسی ہوتی ہے۔ پہلے سال کے بعد ہر چیز پر جمود سا چھا جاتا ہے۔ سب باتیں روزمرہ کی لگتی ہیں۔ سب بچے ایک سے ہوتے ہیں۔ کوئی ہوم ورک نہیں کرتا۔ سب کے ماں باپ شاکی رہتے ہیں۔ یہاں ہر وقت شوربرپا رہتا ہے۔ گھنٹی بجتی رہتی ہے۔ پیریڈ پر پیریڈ گزرتا رہتا ہے۔
چھٹی ہوتی ہے تو ہنگامہ اپنے عروج پرہوتا ہے۔ گاڑیوں کے ہارن، ٹھیلے والوں کی آوازیں، بچوں کا شور، ساری عمارت کو ہلا دیتا ہے۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ پھر اچانک سناٹا چھا جاتا ہے۔ ایسا گہرا سناٹا جیسا موت کا ہوتا ہے۔ پتا بھی کھڑکے تو دیر تک اس کی آواز آتی رہتی ہے۔ سائے اپنا قد بڑھا لیتے ہیں۔ درخت شائیں شائیں کرتے ہیں۔ دور سے گیدڑوں کی آوازیں آتی ہیں۔
بیس سال ایسی ساری شاموں کو میں نے بچوں کی کاپیوں کے بوجھ تلے تمہاری یادوں کے ساتھ گزارا ہے۔ان خاموش لمحوں میں تم سے بہت باتیں کرتی تھی۔ لڑتی جھگڑتی تھی، گلے شکوے کرتی تھی۔ بہت سے سوال پوچھتی تھی۔ بہت سے جواب مانگتی تھی۔ مگر آج جب تم دروازہ کھول کر اتنے برس کے بعد میرے کمرے میں آگئے تو میرے پاس کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔
تم تو جانتے ہوہر ستارے کا اپنا اپنا وقت ہوتا ہے۔
اس کی رفتار اس کے وقت کا تعین کرتی ہے۔ ان کے مابین ہزاروں سال کے فاصلے رہتے ہیں۔ان کے دن رات اپنے ہوتے ہیں۔ اپنے چاند سورج، اپنی کہکشائیں ہوتی ہیں۔بات صرف اتنی ہے کہ تمہارے اور میرے ستارے کا وقت ایک گھڑی کے تابع نہیں تھا۔
جانے مجھے کیوں یقین ہے کہ تم آج یہاں میری محبت کے ستارے کی کشش میں نہیں آئے۔ تم تو حیرت زدہ ہوکر، ترس کھا کر یہاں تک پہنچے ہو۔
شاید تم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ میں اُن لمحوں کی پوٹلی کو اب تک سنبھالے ہوئے ہوں گی۔ تمہیں شاید مجھ پر ترس آرہا ہے۔ میرے انتظار کے سال تمہیں دکھ دے رہے ہیں۔ لیکن تمہیں دکھ دینا میرا مقصد نہیں ہے۔ اتنے برس میں نے اس لیے یہاں نہیں کاٹے۔مجھے تم سے کوئی بھی گلہ نہیں، بس میری تم سے یہ درخواست ہے کہ مجھ پر رحم مت کھاؤ۔ میرے ستارے کو عظیم رہنے دو۔
اسے زمین پر مت لاؤ۔ اس کی توقیر بھلے نہ کرو مگر روشنی کے اس کُرّے کو تحقیر سے بچاؤ۔یاد رکھو محبت کے ستارے جب زمین پر آتے ہیں تو خاک ہوجاتے ہیں۔ اس واقعے کو مٹی میں نہ ملنے دو۔ محبت کے مسئلے کو آفاقی رہنے دو۔
مجھے تم سے کچھ نہیں لینا۔ کوئی دنیاوی چیز اکیس سال کا نعم البدل نہیں ہوسکتی۔ معذرت کا کوئی جملہ، ندامت کا کوئی آنسو وقت کے پہیے کو پیچھے کی جانب نہیں دھکیل سکتااور پھر آخر تم مجھے کچھ دینا کیوں چاہتے ہو؟۔
مال و دولت، حسب نسب، روشنی، تاریکی اب مبہم سی باتیں ہیں۔انتظار کا فیصلہ تو میرا اپنا تھا۔ تم نے تو کسی بندھن کا وعدہ نہیں کیا تھا۔ کسی شگن کی امید نہیں دلائی تھی۔ بس اپنے مدار کی گردش سے آزاد ہونا میرے اختیار میں نہیں تھا۔
عجیب بات یہ نہیں کہ تم اتنے برس کے بعد اچانک اس طرح سے لوٹ آئے۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ مجھے پورا یقین تھا کہ تم آج شام اسی لمحے یہاں پر آؤ گے۔
میں تمہارا ہی انتظار کررہی تھی۔ ورنہ میرے بالوں میں اُڑسی یہ موتیے کی کلی روز کہاں کھلتی ہے۔ آسمان پر دوروشن ستارے کب پاس پاس چمکتے ہیں۔ یقین مانوجب تم میرے دروازے سے کچھ دور تھے تو میں تمہارے ہی قدم شمارکر رہی تھی۔ مجھے یہ بھی پتہ تھا کہ تم دستک نہیں دو گے۔ بس ہمیشہ کی طرح دروازہ کھول کر اندر آجاؤ گے۔ تم اب جو کہہ رہے ہو وہ بے معنی ہے۔
تمہارے سفر کا ستارہ کچھ اور کہہ رہا ہے۔
اکیس سال، سات مہینے اور گیارہ دن کے بعد تم آکر چلے بھی گئے۔ تمہارے پاس ان برسوں کے بہت سے جواب تھے۔ تم بہت سی معذرتیں، مصلحتیں، جواز اور مشکلوں کے قصے سنا رہے تھے اور میں جو اتنے برس، اس ایک لمحے کے لیے جیتی رہی اس تمام عرصہ میں بس آنسوؤں بھری آنکھوں سے تم کو تکتی رہی۔ تم چلے گئے یہ تمہارے ستارے کا فیصلہ تھا، میں جو چپ بیٹھی رہی یہ میرے مرکز کا حکم تھا۔تم آئے تو میں نے کچھ نہیں کہا۔ تم چلے گئے تو اب بھی میرے پاس کوئی لفظ نہیں۔ بس میرے سامنے بچوں کی کاپیوں کا ڈھیر ہے جن پر میں ہر شام کی طرح سٹار بنا رہی ہوں۔

Browse More Urdu Literature Articles