Katherine Aur Wall Street Ki Shaam - Article No. 893

Katherine Aur Wall Street Ki Shaam

کیتھرین اور وال سٹریٹ کی شام - تحریر نمبر 893

گھر کا خرچ چلانے کے لیے سکول سے آنے کے بعد ہم تنکوں سے ٹوکریاں اور ہیٹ بناتے تھے جو لاہور کا ایک تاجر ہم سے خرید لیتا تھا۔

پیر 11 مئی 2015

جعفر حسین:
"تم ہمیشہ اداس کیوں نظر آتے ہو؟"۔ کیتھرین میری طرف جھکی اور آنکھوں میں جھانکتے ہوئے نرم لہجے میں پوچھا۔ کیتھرین کا سوال مجھے ماضی میں کئی سال پیچھے لے گیا۔ میں اس وقت سکول میں پڑھتا تھا۔ گھر کا خرچ چلانے کے لیے سکول سے آنے کے بعد ہم تنکوں سے ٹوکریاں اور ہیٹ بناتے تھے جو لاہور کا ایک تاجر ہم سے خرید لیتا تھا۔

ایک ٹوکری کے پانچ روپے اور ہیٹ کے دس روپے ملتے تھے۔ ہمارے ہْنر کو کوڑیوں کے بھاوٴ خرید کر وہ انہیں موتیوں کے بھاوٴ ایکسپورٹ کردیتا تھا۔ ایک ٹوکری پانچ لاکھ اور ہیٹ پندرہ لاکھ میں بیچتا تھا۔ اس کے پاس ڈیفنس میں دو ایکڑ کا وسیع و عریض محل تھا۔ اس کے بچّے امریکہ میں پڑھتے تھے۔ لمبرگینی اور فراری سے پورشے اور بنٹلے تک۔

(جاری ہے)

۔ اس کے پاس اعلی سے اعلی گاڑیاں تھیں۔

اس کے سوٹ اٹلی سے سِل کر خصوصی جہاز پر آتے تھے۔ اس کے پاس بارہ شیف تھے جو دنیا کی اعلی سے اعلی ڈشز بنانے میں کمال مہارت رکھتے تھے۔ اس کے محل میں آئی میکس سینما سے لے کر چڑیا گھر تک ہر چیز موجود تھی۔ یہ سب اس نے ہماری محنت کی کمائی لُوٹ کر بنایا جبکہ میرے پاس سکول کی فیس دینے کے پیسے تک نہیں ہوتے تھے۔۔۔ اتنا کہہ کر میں سانس لینے کے لیے رُکا۔
۔۔ کیتھرین دم سادھے یہ کہانی سُن رہی تھی۔۔۔ اس کا تیسرا ہمبرگر ابھی تک ویسے کا ویسا ہی پلیٹ میں رکھا ٹھنڈا ہورہا تھا۔۔ بئیر پڑی پڑی گرم ہورہی تھی۔۔۔
"بہرحال" میں دوبارہ گویا ہوا۔۔ " جیسے تیسے میں نے میٹرک پاس کرلیا اور ملتان چلا آیا۔ یہاں میرے ہم وسیب بہت سے دوست تھے جنہوں نے میرا بڑا ساتھ دیا۔ ان کی محبتیں اور احسان میں کبھی نہیں بھول سکوں گا۔
ایم اے انگلش کرنے کے بعد میں نے اخبار میں نوکری کرلی۔ انہی دنوں اس اخبار میں ایک پنجابی جو ایم اے جرنلزم کرکے آیا تھا، وہ بھی بھرتی ہوا۔ میں اس سے ہر لحاظ سے بہتر تھا۔ مجھے انگلش بھی فر فر آتی تھی۔ جبکہ وہ بے چارہ اردو بھی نہیں بول سکتا تھا۔ لیکن مجھے سائیڈ لائن کرکے اس کو پروموٹ کیا گیا۔ اس کا کالم بھی شائع کرنا شروع کردیا گیا۔ نامور پنجابی صحافیوں نے اس کو پروموٹ کیا۔
آج وہ سب سے مقبول کالم نگار ہے۔ سب سے ہائلی پیڈ جرنلسٹ ہے۔۔۔ مجھے کیا ملا؟ مجھے ہمیشہ دیوار سے لگایا گیا۔ میری حق تلفی کی گئی۔ کسی اخبار یا چینل میں مجھے ٹِکنے نہیں دیا جاتا۔ میرا جُرم صرف یہ ہے کہ میں اپنی مظلوم قوم کے حق میں آواز اٹھاتا ہوں۔ میں نے ظالم پنجابی حکمرانوں کی کھربوں ڈالرز کی کرپشن کا سراغ لگایا۔ لیکن میری آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔
"
کیتھرین کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔۔۔۔ اس نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے تھپتپھایا۔۔۔ "اصل بات ابھی باقی ہے میری دوست"۔۔۔ میں نے سلسلہء کلام جوڑتے ہوئے کہا، " اگر اس تربیتی کورس کے سلسلے میں میرا نیویارک آنا نہ ہوتا تو میں کبھی نہ جان سکتا کہ میری محنت کی کمائی سے کیا کیا ہورہا ہے۔۔۔ سنو، پیاری کیتھرین، مجھے وال سٹریٹ پر ان تنکوں کی خوشبو آتی ہے جن سے ہم نے ٹوکریاں اور ہیٹ بنائے اور تم شاید سن کر حیران ہوگی کہ ایک عظیم الشان برانڈ چین میں، میں نے وہی ٹوکریاں اور ہیٹ لاکھوں ڈالرز میں بکتے دیکھے ہیں۔
ہماری خون پسینے کی کمائی سے آپ لوگوں نے نیو یارک جیسے شہر کھڑے کرلیے ہیں۔۔ تخت لہور ہو یا وال سٹریٹ۔۔۔ سرائیکی وسیب کا خون سب نے چُوسا ہے۔۔ سوال تو یہ ہے کہ ہمیں کیا ملا؟ غربت، ناانصافی، طعنے۔۔۔"
کیتھرین نے بچا ہوا تیسرا ہمبرگر منہ میں ڈال کے گرم بئیر کا لمبا گھونٹ لیا۔۔۔ اور ایک طویل ڈکار لے کے میرے دونوں ہاتھ تھام لیے اور میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی۔۔۔ "روٴف، میں ان سب ناانصافیوں کا اُپائے تو نہیں کرسکتی لیکن اپنا قرض ضرور ادا کرسکتی ہوں۔۔"
اس کی آنکھوں میں محبّت اور سُپردگی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles