Qeemti - Article No. 898

Qeemti

قیمتی - تحریر نمبر 898

وہ ہر پندھرواڑے باقاعدگی سے اتوار کے روز دو بجے دوپہر کی گاڑی نمبر2سے سوار ہوتی اور پھر دو ہفتے بعد جمعہ کی شام چار بجے والی ٹرین سے واپس امرتسر آجاتی تھی۔جاتے سمے ہاتھ میں کتابیں ٹفن کیریئرز کئی قسم کی ٹوکریاں اور ہینڈ بیگ ہوتے جو واپسی میں خالی ہوتے۔

جمعرات 28 مئی 2015

نیلم احمد بشیر:
نہ جانے اس کانام کیا ہوگا؟راموسو چتا۔چہرہ تو بالکل فلم سٹار نور جہاں کی طرح تھا۔گول مٹول سرخ سفید بھرابھرا۔ روشن چمکتی آنکھیں کشادہ پیشانی اور پھر آواز یوں جیسے گرمیوں کی رت میں لچھن کا کاکے آموں کے باغ میں کوئل کوکتی ہو۔ کیسے ہونٹ گول گول گھما کراپنی سہیلی کوآواز دیتی تھی۔
کانتااری کانتااری‘جلدی کر ٹرین چھوٹنے والی ہے۔بالکل نور جہاں لگتی تھی۔ رامونے پچھلے ہی ہفتے دلیب اور نورجہاں کی فلم جنگو منرواسینما میں دیکھتی تھی اور تبھی سے وہ نور جہاں کاگرویدہو گیا تھا۔
یہ لڑکی بھی توویسی ہی دکھتی تھی۔پیاری معصوم بھولی مگر حوصلہ مند حوصلہ مندنہ ہوتی تو بھلایوں امر تسرسے لاہور کے کسی کالج میں پڑھنے کے لیے کبھی جاتی ؟ایسا تو کوئی جی دار لڑکی کرسکتی تھی۔

(جاری ہے)

اوپر سے مسلمان ۔یہ تو حد ہی نہیں ہوگئی تھی۔کالا برقع پہنے جب وہ جار جٹ جا مہین نقاب الٹتی تویوں لگتا جیسے چودھویں کا چاند نکل آیا ہو۔پھب ایسی نرالی کہ اس کے پلیٹ فارم پر قدم رکھتے ہی پوراامرتسرسٹیشن بتیاں جلائے بغیر جگمگ جگمگ کرنے لگتا ۔
وہ ہر پندھرواڑے باقاعدگی سے اتوار کے روز دو بجے دوپہر کی گاڑی نمبر2سے سوار ہوتی اور پھر دو ہفتے بعد جمعہ کی شام چار بجے والی ٹرین سے واپس امرتسر آجاتی تھی۔
جاتے سمے ہاتھ میں کتابیں ٹفن کیریئرز کئی قسم کی ٹوکریاں اور ہینڈ بیگ ہوتے جو واپسی میں خالی ہوتے۔
رخصت کرتے سمے اس کے ماں باپ بہن بھائی ہمیشہ نم آنکھوں سے اسے جدا کرتے سر پر ہاتھ پھیرتے چومتے نصیحتیں کرتے تھے۔یہ مناظر را مونے کئی بار دیکھے مگر اس کاجی نہ بھرا۔پلیٹ فارم پر جھاڑو لگاتے ہوئے وہ اکثر اس کی کھڑکی کے قریب آکر دھیرے دھیرے ہاتھ چلاتا تاکہ اس کی اس کے گھروالوں کی آپس کی باتیں سن سکے۔
اس کے ہاتھ اس کی ہم جماعت لڑکی کا نتابھی ہوتی تھی جس سے وہ اکثر کالج کی باتیں کرتی تھی۔
کبھی کبھار وہ صفائی کرتا کرتا ان کے ڈبے کے اندر تک آجاتا تو دونوں شریر سہیلیاں اس سے خصوصی صفائی کرنے کو کہتیں اور پھرانعام کے طور پر کچھ پیسے یا کوئی کھانے کی چیز دے کر ہی چھوڑتیں ۔ وہ خوشی اور شرم سے لال ہو جاتا باربار نہ نہ کرتا مگر وہ باز نہ آتیں۔
کتنا مزا آتا تھا اسے ان کے قریب ہوکر چند لمحے ان کی کھنکتی ہوئی ہنسی سننے میں ۔راموزسرشار ہو کر جھاڑواپنے کاندھے سے لگائے جگنو فلم کے گانے کا انترہ گنگنا نے لگتا ابھی کچھ ہے۔ابھی کچھ ہے۔ ابھی کیا تھا ابھی کیا ہے۔قوس قزح کے خوبصورت رنگ اس کے قدم چومتے گدگداتے تو وہ نہال ہوجاتا۔
کبھی کبھی سوچتا ان دونوں لڑکیوں کے ماں باپ کتنے عجیب اور الٹے قسم کے لوگ ہوں گے جو اپنی دو کھلے گلاب کی سی خوبصورت جوان لڑکیاں شہر سے اتنی دور پڑھنے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔
ایسی بھی کونسی پڑھائی ہے جو دوسرے شہر ہی جاسکتی ہے۔یہ تو اس کے علم میں تھا کہ کئی لڑکے بھی امرتسر سے سائیکلوں پر سوار ہو کر لاہور پڑھنے جاتے تھے مگر لڑکیاں ؟یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔یقینا یہ لڑکیاں یا تو باولی ہیں یا پھر ان کے ماں باپ کو ان کی کوئی فکر نہیں ہے اور پھر اپنی نورجہاں یہ نام اس نے خود ہی گھڑلیا تھا۔وہ باولی لگتی تو نہیں تھی ٹھیک سمجھدار‘ عقلمند دکھتی تھی۔
بہادر مگر خیراتنی بہادر بھی نہیں تھی ۔ رامواس کے بارے میں اکثر سوچتا رہتا تھا۔اسے یاد آیا ایک روز سیٹ کے نیچے چوہے کو دیکھ کر نورجہاں بی بی نے اتنی زور سے چیخ ماری تھی کہ سبھی مسافر اس کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔جلدی جلدی نورجہاں نے کھڑکی میں سے اشارہ کر کے رامو کو اندر بلایا تو رامو کو لگا جیسے وہ اسے کوئی پیار کا سندیسہ بھیج رہی ہے۔
وہ لپک جھپک اپنا بڑا سا جھاڑو آیا اور چوہے کو کسی نہ کسی طرح پکڑا کر ہی دم لیا۔مرے ہوئے چوہے کو وہ فخریہ انداز میں جھاڑو پر لٹائے نورجہاں کے پاس سے گزراتوجی چاہا اس خبیث بے ادب چوہے کو دم سے پکڑا کر اہنی عالیہ کے دربار میں پیش کر دے مگر پھر نہ جانے کیوں ایسا کرنا اسے مناسب نہ لگا۔
کیا خبر نورجہاں پھر سے ڈرجائے بلکہ ڈر کے کہیں اس سے چمٹ ہی نہ جائے اور پھر میرے کپڑوں کی باس نہیں نہیں یہ ٹھیک نہیں ہوگا۔
اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا کہ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔پھر نورجہاں کی خوفزدہ سرخ آنکھوں اور زرد گلاب جیسے چہرے نے اسے یہی بتایا کہ اس نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا۔نور جہاں کی متشکر انہ نگا ہوں نے دورتک اس کا تعاقب کیا تو رامو کی چھاتی اور چوڑی ہوگئی ۔اسے لگا وہ جگنو فلم کا دلیپ کمارہے اور اسی نشے میں اس نے ایک نظر بھر کر نورجہاں کی طرف دیکھا تو اسے گمان ہوا وہ اسے دیکھ کر ہولے سے مسکرائی تھی یاا سے بس یونہی لگا تھا کہ وہ مسکرائی ہے۔

اس روز اس نے گھر پہنچ کر ماتا سے فرمائش کر کے شکر کی دو بڑی بڑی روٹیاں پکوائیں اور سڑک کر کے چائے کا بڑا ساگول پیالہ پیا۔اسے غیر معمولی طور پر خوش دیکھ کر ماتا بھی پوچھے بغیر نہ رہ سکی ۔ کیوں پترکیا بات ہے؟آج بڑا خوش لگ رہا ہے؟ کیا کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے؟رامونے یہ سن کر منہ لٹکا لیااور چائے کے بچے ہوئے ٹھنڈے میٹھے گھونٹ حلق سے نیچے اتارنے لگا۔
اسے پتہ تھا اماں نے اسے کس بات کا طعنہ دیا ہے۔علاقے کے اکثر جمعداروں کو ٹرینوں ‘پلیٹ فارموں کی صفائی کرتے کرتے کوئی نہ کوئی قیمتی چیز ہاتھ لگ جاتی تو اس کاخوب ڈھنڈورا پٹتا۔کبھی کسی مسافر کا گراہوا کرنسی نوٹ کوئی قیمتی دوشالہ سونے کا جھمکا ‘زنجیری‘یا پورا بٹوہ بھی مل جایا کرتا تھا۔ایسے میں ڈھونڈے والے کی خوشی دیدنی ہوتی ۔
وہ ساتھیوں کی حسرت بھری‘ چبھتی نگا ہیں بھول کر اپنی دریافت پر خوش ہو کر ناچ اٹھتا اور سبھی جھوٹے سچے دل سے اسے مبارکباد بھی دینے لگ جاتے۔
اتفاق کی بات تھی کہ رامو کے ہاتھ کبھی کوئی کام کی چیز نہیں لگی تھی۔کبھی کبھار وہ کسی کی گری ہوئی بالوں کی کلپ‘ کانچ کی چوڑی‘ گر جانے والی ایک چپل پانی کا گورا گھڑا ‘ ہولڈال میں سے ٹپکا ہوا تکیہ اٹھا لاتا تو ساتھی اور گھر والے ہنستے ہنستے دہرے ہو جاتے ۔
رامو بھی کھسیانا سا ہوا کر سر کھجانے لگ جاتا ور بات آئی گئی ہوجاتی۔
رامو کواب تک اتنا ضرور پتہ چل چکا تھا کہ نورجہاں کا اصل نام سلطانہ ہے مگر وہ من ہی من میں اسے نورجہاں ہی پکارتا تھا۔وہ نظر آتی تو رامو کی نگاہیں اس پر ہی ٹکی رہتیں ۔اس کی ہر بات ہر ادااس کے لیے زندگی کا اہم ترین واقعہ ہوتی۔آخر ایسی کیا بات ہے اس لڑکی میں؟وہ اپنے آپ سے سوال کرتا مگر اسے کوئی جواب نہ ملتا تو اسے اپنے ہی دماغ کا خلل سمجھ کر خود کو سمجھانے بیٹھ جاتا کہ کہاں وہ مگر اس کا پاگل منوا کچھ بھی سمجھ نہ پاتا۔

کبھی کبھار کا نتا اور سلطانہ اس سے اپنا کچھ سامان اٹھوانے قلی کو بلانے ‘اسٹیشن ماسٹر سے ٹرین چھوٹنے کا صحیح وقت پوچھ کر آنے کا کہہ دیتیں تورامو کے بازوؤں میں بجلیاں سی دوڑ جاتیں ۔اسے لگتا اس نے جھاڑو نہیں کوئی سر کیا ہوا ستار تھام رکھا ہو جس میں سے مدھرنغمے پھوٹ کر فضامیں جادو بکھیر رہے ہیں۔کبھی وہ کومل سے تیوراور تیور سے اتی تیور میں چلاجاتا تو کبھی اس کا خوبصور ت الاپ لمبا ہوکر پھولوں بھری وادیوں کی راہداریوں میں بہتا ہی چلاجاتا۔

دیگر خاکروب دوستوں کو بھی رامو کی سلطانہ میں دلچسپی کا علم ہو چکا تھا جس کی وجہ سے وہ اکثر اسے چھیڑتے رہتے اور ٹرین نمبر 2کے آنے جانے کی اوقات اونچی آواز میں دہراتے رہتے تو رامو مسکرانے لگتا۔
لے بھئی تیار ہوجا۔آرہی ہے تیری سپیشل گاڑی۔وہ ٹرین کے دکھائی دینے سے پہلے اس کے کانوں میں سے گوشیاں کرنے لگتے۔رامو یوں شرما کے نظریں نیچی جھکا لیتا جیسے اس کی کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔
اپنے قلی دوست افضل کو ہونے سے ٹرین کی طرف دوڑا تاتاکہ وہ اس کی سپیشل سواری کا سامان دھیان سے اتارے پھر لوگوں کے بیچوں بیچ سانپ کی طرح سرسراتا رستہ بنانے لگتا تاکہ افضل کوڈبے تک پہنچنے میں وقت نہ ہو۔
سارا سلسلہ بڑا اچھا اور ٹھیک ٹھاک ہی چل رہا تھا۔رامو اپنی یکطرفہ پریم کہانی میں مست اور مگن تھا کہ یکا یک ایک روز ایک دلن غیر متوقع طور پر بیچ میں کودپڑا۔
رامو کوبڑی کوفت ہوئی۔یہ کیا؟ سلطانہ اس کے ساتھ بھلاایسا کیسے کرسکتی ہے۔یہ تو بڑی گڑبڑ ہوگئی تھی۔یہاں بدلہ وفا کا کیا بے وافئی کے سوا کچھ نہیں ؟رامو کا دل ڈوبنے لگا۔اس نے بے بسی سے زورزور سے زمین پر جھاڑو مارنا شروع کردیا۔ اس کی نورجہاں کسی فاختہ کی طرح معصوم اور بھولی تھی مگر اب ایک جنگلی کبوتر اس کے گرد غٹرغوں کر کے گھمن گھیریاں کھاتا نظر آنے لگاتھا۔

رامو کو یونہی وہم نہیں ہوا تھا۔اس نے خود اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھا لیا تھا۔عید ابھی ابھی ختم ہوئی تھی۔سلطانہ کے گورے گورے ہاتھوں میں رچی سرخ مہندی اور کلائیوں پر ڈولتی رنگ برنگی دھانی چوڑیاں قوس کا نظارہ پیش کررہی تھیں۔ چھن چھن کی آواز سے سارا ماحول گنگنانے لگتا تھا۔رامو مبہوت ہو کر ان سنگ مرمر کے بنے ہاتھوں کو دیکھتا چلاجارہا تھا کہ یکدم اسے ان کے درمیان کسی تیسرے شخص کی موجودگی کا احساس ہوا ۔
کون ان دونوں کے سکھ چین میں مخل ہونے کو آگیا تھا؟ وہ سلطانہ کے بالکل قریب ہی بیٹھا تھا جس سے وہ دھیمے دھیمے انداز میں باتیں کررہی تھی۔اس نے کتاب اپنے چہرے کے آگے سے لمحے بھر کو کھسک جاتی اور چاند نکل آتا۔اس کے کانوں کا ایک بالا جھوم کرنا چنے لگتا اور چند آوارہ لٹیں گالوں پر مچل مچل جاتیں ۔کیا عجیب نظارہ تھا۔دیکھتے جی نہیں بھرتا تھا ۔
رامو نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر غور سے دیکھا۔کیا یہ وہی روزوالی سلطانہ تھی؟یہ تو کوئی اور ہی لڑکی دکھتی تھی؟اس لڑکی کے لب کسی نئے اور انوکھے جذبے کی شدت سے کانپتے اور آنکھیں دئیوں کی طرح باربار چمک اٹھتی تھیں ۔آج رامو ٹرین کے اندرکی صفائی کی ڈیوٹی دے رہا تھا اور یہ سب اس کے سامنے ہورہا تھا۔
اس کی نورجہاں کے پہلو میں بیٹھا رقیب بھی کوئی معمولی رقیب نہیں تھا۔
وہ کوئی شکیل ‘جمیل‘ مہندر گوپی چند نہیں بلکہ ایک گورا چٹا ’ اونچا لمبا‘ خوبصورت باوردی پر وقار شخصیت کا مالک انگریز تھا جو شاید برطانوی فوج کے واپس جانے والے آخری جتھوں میں سے تھا۔یہ سالے انگریز اب ہمارے پوتر دیس سے دفعان کیوں نہیں ہوجاتے؟ رامو نے دل ہی دل میں اسے گالیاں دینا شروع کردیں اور صفائی میں دھیان لگانے کی کوشش کرنے لگا۔
دل بڑا ظالم ہوتا ہے۔کسی طرح قابو میں ہی نہیں آرہا تھا۔ سلطانہ نے بھی اسے دیکھ لیا تھا۔تھوڑا بہت اس سے جان پہچان بھی تھی اوراکثر اس کے بارے میں یہی سوچتی تھی کہ یہ خاکروب عام خاکروب لڑکوں سے بہت مختلف تھا۔اجلے کپڑوں میں ملبوس بالوں میں کنگھی پٹی جمائے‘ تمیز سے بات کرتا یہ لڑکا کسی کالج کا ہونہار سٹوڈنٹ بھی ہوسکتا تھا۔افسوس کہ یہ بے چارہ بس ایک خاکروب بن کر رہ گیا۔
اسے تقدیر کی اس ناانصافی پر کئی بارافسوس ہوتاتھا۔
کیا تم بھی لاہور جارہے ہو؟سلطانہ نے اسے مدہم لہجے میں مخاطب کیا۔راموکویوں لگا جیسے پوری کائنات اس سے ہم کلام ہوگئی ہو۔رحمتوں کی بارشوں کا نزول شروع ہوگیا ہو اور دھرتی پر اگنے والے گندم کے خوشوں میں چھپے سنہری دانے خوشی سے ناچنے رہے ہوں ۔نام کیاہے تمہارا؟سلطانہ کے ساتھی نے مسکراکر سوال کیا تو رامو کو لگا جیسے بھگوان نے نرکھ کا دروازہ کھول دیا ہواور زہر مین بھیگے بہت سے نشتر آگ کے دائروں میں سے اچھل اچھل کر اس کی جانب بڑھتے چلے آرہے ہوں ۔
خوشبوؤں میں سجاہوا انگریز کتنا بدبو دار اور کریہہ المنظرلگ رہا تھا۔رامو نے نفرت سے اپنی ناک سکیڑلی اور چہرہ نیچے کر کے آہستہ سے جواب دیا رامو۔
اچھا بھئی رامو بھیا۔ہماری سیٹ کے نیچے ذراچھی طرح صفائی کردو۔یہ جوبی بی ہیں نا بڑی گندی بچی ہیں۔مونگ پھلی کھا کر سارے چھلکے سیٹ کے نیچے پھینک دیتی ہیں اور اب مجھے ڈرہے سیٹ سے نیچے قدم رکھتے کہیں ان کے ہی پاؤں میں نہ چبھ جائیں۔
انگریز نے مضحکہ خیز انگریزی لب ولہجے میں ہندی بولتے ہوئے کہا۔ تو سلطانہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی اور بولی جھوٹے کہیں کے۔رابرٹ چھلکے میں نے کب گرائے ہیں تم ہی تو نیچے ڈھیر لگائے جارہے تھے۔دونوں آپس میں ہنسی مذاق کرنے لگے۔
رامو نے سیٹ کے نیچے جھاڑو تو پھیر دیا مگر یہ دیکھ کر اس کے کلیجے میں ٹیس اٹھی کہ چھلکوں کے بیچ بیچ کہیں کہیں ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کے ٹکڑے بھی تھے۔
یہ چوڑیاں ؟رامو نے خود سے سوال کیا ۔نہیں نہیں نورجہاں ایسی تو نہیں ہوسکتی ۔وہ نیک معصوم گنگا جل کی طرح پوتر ہے۔اچھے خاندان کی پڑھی لکھی لڑکی ہے۔وہ بھلا کیسے ایسا کوئی غلط کام کر سکتی ہے؟اس نے اپنے سلگتے ہوئے دل کو تسلی دی۔
بھلا اسے اس لال بندر میں نظر کیا آتا ہے۔سارے دیش کو تو نقصان پہنچایا ہے انہوں نے ادب یہ اسے بھی کوئی نہ کوئی نقصان پہنچاکر ہی چھوڑے گا مگر میں یہ ہونے نہیں دوں گا۔
رامو نے دل ہی دل میں فیصلہ کرلیا اور چوکنارہنے لگا۔
چاچا غلام نبی سنا ہے ہمارا دیش آزاد ہونے والا ہے۔تو پھر یہ گورے اب تک یہاں کیوں ہیں ۔ ایک روزاس نے ایک بزرگ جمعدار سے سوال کیا۔چلے جائیں گے پتر۔ جلدی چلے جائیں گے۔ تو فکر نہ کر۔ ان سالوں کی ایسی کی مگر چاچا میرا دل ڈرتا ہے ۔پتہ نہیں کیا ہو گا کیسے ہو گا۔بٹوارے کی خبریں آرہی ہیں ۔
بھلا ہندوستان دوحصوں میں کیسے بٹ سکتا ہے۔ھے تو سمجھ نہیں آتی ؟رامو پریشان لہجے میں بولا ۔پلیٹ فارم پر بیٹھی ایک ہندوعورت نے غلام نبی کو اپنی طرف دیکھتے ہوئے اپنا بھوجن اوٹ میں کرلیا اور ایک بارہ تیرہ سالہ بچے کو ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ جاکر ہندونل سے اسے پانی لا کردے دے۔ چاچا یہ دیکھ کے مسکرادیا اور پھر ٹھنڈی آہ بھر کر اخبارپڑھنے لگا۔

تجھے کچھ خبر ہے تیری نورجہاں آج کل کن ہواؤں میں ہے؟ ایک روز اس کے سنگی ساتھی موہن نے اس کے کاندھے پرزور سے تھاپی مارتے ہوئے کہا۔رامو کو لگا جیسے اس کا ایک بہت برا راز فاش ہوچکا ہو۔وہ خاموش رہا کچھ نہ بولا۔
”یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے؟مومن کنگنا تا ہواٹی سٹال پر جا پہنچا۔اور خوب گرم چائے کے گھونٹ اپنے اندر اتارنے لگایاں جیسے اپنے کلیجے میں دنیا بھر کی ٹھنڈک بھر لینا چا ہتا ہو۔
جیسے آگ رامو کے نہیں اس کے اندر مچی ہوئی ہو جیسے سلطانہ اس کی بھی کچھ لگتی ہو۔سبھی سلطانہ کو اپنا اپنا سمجھنے لگے تھے۔
رامو نے کئی بار انگریز اور سلطانہ کو ٹرین میں سفر کرتے آتے جاتے دیکھا۔کبھی کبھی کانتا بھی ان کے ساتھ ہوتی تھی۔وہ تینوں آپس میں خوش گپیاں کرتے بہت خوش نظر آتے۔دونوں لڑکیاں رابرٹ کے ہاتھ سے چاکلیٹ چھین چھین کر کھاتیں شرارتیں کرتی نظر آتیں تورامو کے کلیجے پر سانپ لوٹنے لگتے۔
ایک روز تو اسے اتنا غصہ آیا کہ ٹرین کے پلیٹ فارم سے کھسکتے ہی اس نے زور سے زمین پر تھوک دیا۔پہئے سلطانہ کو اس سے دور لیتے چلے جارہے تھے اور وہ کچھ بھی نہ کر سکتا تھا ایک لخطے کو اس کایہ بھی جی چاہا کہ چلتی ٹرین پرزور کا اک بٹہ دے مارے مگر پھر اس نے خود پر قابو پالیا کیو نکہ اسے معلوم تھا ایسا کر نے سے اس کی نو کرسی بھی جاسکتی تھی ۔اے یہ دیکھو مجھے کیا ملا؟ موہن نے ٹرین کے جانے کے بعد پٹریوں پر اتر کر صفائی کرتے ہوئے چیخنا شروع کردیا۔
سبھی لوگ بھاگ کر اس کے قریب جاپہنچے۔مومن ہاتھ نچانچا کر ایک پیلی سی چیز سب کو دکھا رہا تھا۔ کسی مسافر عورت کے گلے سے گری ہوئی کوئی طلائی زنجیری دکھتی تھی۔
”ارے واہ یار۔تیری قسمت تو بہت اچھی ہے ہمیشہ کوئی نہ کوئی قیمتی چیز ہی تیرے ہاتھ آتی ہے۔ راموحسرت بھرے انداز میں بولا۔
”ہاں بھئی پچھلے مہینے کسی سندر ناری کا جھمکا مل گیا تھا اور آج یہ زنجیری ․․․واہ۔
رامو بھی کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے حیرتسے اظہار خیال کرنے لگا۔
”یار اپنے ہاتھ تو کھبی کوئی کام کی چیز نہیں لگی۔سلیم ٹی سٹال والا ٹھنڈی سانسیں بھرنے لگا۔
”ہم تو خالی ہاتھ ہی گھر جاتے ہیں ۔ماتا بھی طعنے دیتی رہتی ہے۔وہ جیسے اپنے آپ سے بولا جو چاہا وہ کبھی نہ ملا۔رامو نے دور ہوتی چھک چھک کرتی ٹرین کے آخری ڈبے کو گھورتے ہوئے کہا۔

”بٹورا ہوگیا تو کیا ہم سب آپس میں بچھڑ جائیں گے؟ ایک روز پھر چاچا غلام نبی کو اخبار پڑھنے دیکھ کر مہندرنے سوال کیا۔
”وہ کیسے بھئی ؟ہم نے کہاں جانا ہے۔ یہ ہمارا گھر ہے ہمارا شہر ہے امرتسر؟ہم یہاں سے کہاں جاسکتے ہیں ؟افضل نے سوال کرتے ہوئے یقین وہانی کروانے کے انداز میں مہندرکو تسلی دی۔
افضل گہری سوچ میں ڈوباہوا تھا․․․ کچھ نہ بولا۔

”کچھ پتہ نہیں کیاہو نے والاہے۔بڑی بڑی بری خبریں آرہی ہیں ۔اکڑوں بیٹھے چاچا غلام نبی کے لہجے سے فکر اور پریشانی جھلک رہی تھی۔
”سنا ہے کئی شہروں میں ہندو مسلم فسادات شروع بھی ہوگئے ہیں۔میں نے تو سنا ہے ایمن آباد کے دیوانوں نے اب اپنی بیٹیوں کولا ہورپڑھنے جانے سے روک دیا ہے۔“
موہن نے رامو کے کان کے پاس آکر سر گوشی کی۔

تجھے کیسے پتہ ہے؟ رامو تڑپ کر بولا۔
”میری پتنی نے بتایا ہے۔اس کی موسی دیوان صاحب دینا ناتھ کی حویلی میں کام کرنے جو جاتی ہے۔موہن کواندازہ نہیں تھا کہ اس بات سے رامو کے دل پر کتنی بڑی قیامت گزرگئی ہے۔
تو کیا اب سلطانہ ٹرین میں سفر نہیں کرے گی۔میں اسے پلیٹ فارم پر نہیں دیکھوں گا تومیں جیئوں گا کیسے․․میں تو پھر مر ہی جاؤں گا․․رامو اداس ہو کر بیٹھ گیا۔
چنددنوں میں فسادات کی خبریں بڑھ چڑھ کر آنے لگیں ۔ہندومسلم کھنچاؤ بڑھتاہی چلاجارہا تھا۔ملک دو ٹکڑے ہونے والا تھا اور ہر کوئی پریشان تھا کہ نہ جانے کیا ہوگا۔
رامو نے سلطانہ کوکئی ہفتوں سے نہیں دیکھا تھا۔اس کی آنکھیں یوں ویران ہوگئی تھیں جیسے بینائی اس سے روٹھ گئی ہو۔نہ جانے وہ کیسی تھی؟کیا خبر اس کے گھر والوں نے اسے اب گھر میں روک رکھا ہو۔
چلو اچھا ہی ہے۔ایسے حالات میں لڑکیوں کو گھر سے باہر نکلنا بھی نہیں چاہیے۔مگر میں اب اسے کیسے دیکھوں گا رامو سوچ سوچ کے پریشان رہنے لگا۔
ایک روز سارے سٹیشن پر شور مچ گیا کہ کوئی بڑے انگریز صاحب سٹیشن کا معائنہ کرنے آرہے ہیں۔ہر طرف صفائی ‘ستھرائی کاکام ہوتا نظر آنے لگا۔
”رامو تم نے آج ٹرین کے انجن کواچھی طرح اوپر چڑھ کے دھونا اور چمکانا ہے۔
صاحب خوش ہوں گے تو انعام بھی مل سکتا ہے۔ سٹیشن ماسٹر ورماصاحب نے رامو کوخاص ہدایات دیں اور خود کام کی نگرانی میں مصروف ہوگئے۔
رامو نے کالے بمبو کاٹ موٹے بھدے انجن کو یوں پیار سے نہلایا جیسے وہ کوئی پیارا ساروئی کا گڈا ہو۔جب وہ اسے اچھی طرح چمکا کے نیچے اتراتواس کے قدم جیسے کسی چیز نے پکڑ ہی لیے۔اس نے دیکھا پلیٹ فارم کے بالکل اجنبی سے حصے کے ایک بنچ پر دو لڑکیاں قریب بیٹھی آپس میں کھسر پھسر کر رہی ہیں۔
اس کے لیے اندازہ لگانامشکل نہ تھا کہ وہ سلطانہ اور کانتا تھیں جو شاید ایک عرصے بعد آپس میں مل رہی تھیں۔وہ دیوار کی اوٹ میں ہوگیا اور پورے کان لگاکر غور سے ان کی باتیں سننے لگا۔
”کانتا اباجان کہہ رہے ہیں ہمیں جلدی ہی امرتسر چھوڑنا پڑے گا۔اب ہمارا یہاں رہنا دشوار ہوگیا ہے مگر میں بھلاکیسے جاسکتی ہوں؟ تجھے تو پتہ ہے میں اسے چھوڑ کر نہیں جاسکتی وہ یہیں پوسٹڈ ہے۔
سلطانہ نے ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے کانتا کی طرف دیکھ کر کہا۔
”بھول جا اسے اب حالات بہت خراب ہوگئے ہیں۔میری پیاری تجھ سے جدا ہونے کے خیال سے میرا دل کٹ کے رہ جاتا ہے مگر ہم کیا کر سکتے ہیں؟کانتا نے پیار سے سلطانہ کاشانہ تھپتھپا یاتو سلطانہ ہولے ہولے سسکنے لگی۔
”میں چلی گئی تو وہ مجھے ڈھونڈے گا مجھے اس سے ملنا ہے ورنہ میں مر جاؤں گی۔
سلطانہ نے دو پٹے سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
”پاگل ہوئی ہے کیا؟کہاں ملے گا اب وہ تجھے ؟چاروں طرف سے بری بری خبریں آرہی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوئے ہیں اور تجھے اس کی پڑی ہوئی ہے ۔اگر اتنا ہی سچا ہوتا تو آج وعدے کے مطابق تجھے ملنے نہ آتا۔کانتا ڈانٹ کربولی ۔
”چل اٹھ بس اب گھر چلیں کہیں کوئی گڑبڑنہ ہوجائے۔“
”وہ آئے گا وہ ضرور آئے گا اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اب کی یار میرے والدین سے مل کر بات کرے گا۔
سلطانہ بضدرہی۔
”توبس پھر بیٹھی رہ یہیں اکیلی میں تو چلی ارے پگلی انگریز ہے بھاگ گیا ہوگا ولایت وہ بھلا یہاں کیوں رہے گا ان حالات میں اسے بھی تو جان پیاری ہوگی نا۔
کانتا نے اس کاہاتھ پکڑا اور تقریبا گھسیٹتی ہوئی سٹیشن سے باہر لے جانے لگی۔رامو کی تورگوں میں جیسے خون جم سا گیا ۔یہ بے وقوف لڑکی بھلا کیا سوچ رہی تھی ۔اسے تو کوئی عقل کوئی مت کوئی خوف ہی نہیں ہے۔
روز میں آتا ہے کہ ہندو مسلم گروہوں میں چھرے گھونپنے کی وارداتیں ہورہی ہیں۔سٹیشن لاوارث پڑے ہیں۔نہ کوئی پولیس ہے نہ ٹی ٹی ٹکٹ چیکر نفسانفسی کا عالم ہے رامو سوچتا چلا گیا۔
مسلمان پاکستان ہجرت کرنے کی سوچ رہے تھے مگر ڈرتے تھے کہ کسی غیر محفوظ گھڑی کی گرفت میں نہ آجائیں۔چاروں طرف خوف بے یقینی اور دہشت کے سائے لہراتے تھے۔
چندہی دنوں بعد وہ واقعہ ہوگیا جس کی رامو کوفکر تھی۔
اس نے سلطانہ کو بمعہ اپنے خاندان اور سامان کے لاہور جانے والی گاڑی میں سوار ہوتے دیکھ لیا۔اس کے گھر والے حفاطت سے سامان کے لاہور جانے والی گاڑی میں سوار ہوتے دیکھا لیا۔اس کے گھر والے حفاظت سے سامان لدوارہے تھے۔ جبکہ سلطانہ جانے کس خیال میں کھڑکی میں منہ دئیے باہر کو دیکھتی تھی ۔یوں جیسے اسے کسی کے نظر آنے کی امید اورانتظار ہو۔آپ جارہی ہیں بی بی جی رامو حوصلہ کر کے کھڑکی کے پاس چلا آیا اور پہلی بار سلطانہ سے خود مخاطب ہوا ۔

”ہاں رامو میری سہیلی ہے ناکانتا وہ مجھے ڈھونڈنے آئے یا کوئی بھی آئے تو ان سے کہنا میں جلدی واپس آؤں گی اچھا کہہ دو گے نا؟“
رامو نے ہولے سے سر ہلادیا۔اور ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے ٹرین کے پہیوں کو اپنی متاع حیات اس دورلے جاتے دیکھنے لگا۔دل تھا کہ جیسے پھٹا ہی جارہا تھا۔
گاڑی کو گئے ہوئے ابھی ایک گھنٹہ بھی نہ گزراتھا کہ رامو کو اچانک وہ نظر آگیا ۔
سالالال بندر راموکا منہ کسیلا ہوگیا۔رابرٹ بے چینی سے دیکھتا ادھر اٌدھر نظریں دوڑارہا تھا اور باربار یوں گھڑی دیکھ رہا تھا جیسے اسے کچھ دیر ہوگئی ہو ۔تاسف اس کے چہرے سے عیاں تھا۔
یکایک رامو کوایک عجب سی خوشی محسوس ہوئی۔اس کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑگئی۔اچھا ہے سالا اسے ڈھوتا ہی رہے چلو اچھا ہے۔یہ ادھرتو وہ ادھر اس کے لبوں پر ایک مدھر بھری مسکراہٹ کھیلنے لگی اور اس نے سلیم ٹی سٹال سے دوکپ سپیشل ملائی والی چائے پی کے زور سے ڈکار ماری اپنے جھاڑو کو زورزور سے زمین پر مارکے دیکھا کہ وہ کتنا تن سکتا ہے اور پھر اسے پیارسے سینے سے لگالیا۔

گھر پہنچ کر رامو کسی سے کچھ کہے سنے بغیر اپنے بستر میں گھس گیا اور تکیے میں منہ چھپا کر خوب رویا اسے لگا اس کی زندگی اس سے ہمیشہ کے لیے روٹھ گئی ہے اور اب اس کے پاس جینے کا کوئی جواز نہیں بچا۔ ماتا نے کئی باراسے روٹی کانے کو آواز دی مگر وہ سوتا بنا رہا۔
دروازے پر دھڑ دھڑ کی آواز اتنی شدید تھی کہ کٹیا کے سبھی لوگ یکدم ہر بڑا گئے۔
پر کاش پرکاش رامو کسی نے زورزور سے رامو کے باپ اور رامو کو آوازیں دیں۔
ارے کیا ہوا دھنی رام؟کیوں اتنا چلارہے ہو۔ دروازہ توڑ دو گے کیا؟ باپو اپنی چیل کوپاؤں میں ڈالتے ہوئے جوابا چلایا۔
”کیا آفت آگئی ہے؟ خیر تو ہے؟ رامو بھی کھٹیا سے اٹھ کھڑا ہوا۔
”چلو اٹھو چاچا یہ گھر بیٹھنے کا وقت نہیں ہے۔لاہور جانے والی ٹرین سٹیشن سے کچھ ہی فاصلے پر روک لی گئی ہے۔
سب وہیں جارہے ہیں ۔ مال بہت ہوگا سالے مسلے اپنا سونالے کر پاکستان جارہے تھے۔چل رامو کاکا اٹھو ہمارے ساتھ چلو۔
ہمسائے گر پریت سنگھ نے کرپان ہوا میں لہرائی تواس کی چمک سے روشنی سی پھیلنے لگی۔چلو جلدی کرو باجو کے محلے کے لوگ تو پہنچ بھی گئے ہیں۔سارا جتھہ جوش وولولے سے لر زرہا تھا۔
چل جا تو بھی گھر کے لیے کچھ سامان لے آتو تو ہمیشہ خالی ہاتھ ہی آتا ہے۔
نکمانہ ہووے تے ماتا نے کئی قسم کی بھاجی سے بھری ہوئی پیتل کی تھالی راموکے آگے سے کھینچ لی اور اپنے پتی کی جوتی کادوسرا پیرا ڈھونڈ کر اس کے ہاتھ میں تھمادیا۔
”رام رام سلطانہ بھی تو اسی گاڑی میں سوار تھی۔اسی خیال کے آتے ہی رامو اپنی پیڑھی سے یوں اچھلا جیسے اسے کسی زہریلے بچھو نے ڈنک ماردیا ہو۔
”چلو چلیں بھائیو“وہ پوری شدت سے چلایا اور پورا جتھہ جے رام جی کی جے پکارتا چھرے لہراتا چھلانگیں مارتا اس کے ساتھ سر پٹ دوڑنے لگا۔

”ارے ان مسلوں نے ہماری بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ جو کچھ کیا ہے۔وہ ہم نہیں بھول سکتے۔آج انہیں اس کامزا چکھا کر ہی چھوڑیں گے۔مال بھی ملے گا اور سوہنی سوہنی زنانیاں بھی جوان ہندو لڑکوں کی خوشی سے باچھیں کھلنے لگیں۔ان کے چھرے اور چمکدار دکھائی دینے لگے ۔کئی سوسالوں سے مسلم حکمرانی کاغصہ دل میں پالنے والی ہندوجاتی کو یہ سب بڑا مناسب اور ٹھیک لگ رہا تھا۔

جنگل میں اچانک روک دی جانے والی ٹرین حیرت زدہ سی کھڑی تھی۔بمبوکاٹ کالے انجن کی چھت سے سفید بھاپ اب بھی دھیرے دھیرے خارج ہورہی تھی۔پرجوش جتھے کے نوجوانوں کے قدم باربار کسی نہ کسی چیز میں اٹک کے رہ جانے تو انہیں بہت کوفت ہوتی ۔کبھی کسی کا سر پاؤں میں آجاتا کبھی کسی کی ٹانگ ۔کسی کا صندوق الٹا ملتا تو کسی کی بندھی ہوتی گٹھڑی اور کھلی ہوئی آنکھیں انہیں گھورتی نظر آتیں۔
چاروں طرف خون آمیز کیچڑ تھا۔سنی ہوئی لاشوں پر بھنبھنانے مکھیوں‘مچھرں کے غول تھے۔ آہیں اور سسکیاں تھیں بھوک سے ہلکتے شیر خوات بچوں کی بلبلاتی آوازیں تھیں اور موت کے لرزتے بھیانک سائے۔ سبھی لوگ سامان لوٹنے سونا اور عورتیں ڈھونڈنے میں مصروف ہوگئے۔رامو بھی مگر اسے تو بس ایک ہی سامان ایک عورت کی آرزو اور تلاش تھی۔اسے کسی بھی چیز میں کوئی بھی دلچسپی نہیں تھی۔

سلطانہ کو ڈھونڈنے کے لیے اس نے ٹرین کا ہر ڈبہ کنگال مارا مگر وہ اسے کہیں نہ ملی۔ہر جوان مردہ لڑکی کا چہرہ الٹا گھما کر دیکھا مگر ہاتھ صرف ناامیدی ہی آئی ۔اس کے ساتھی رقص وحشت میں بدمست مردوں ‘عورتوں کی بوٹیاں نوچتے ،ٹکڑے کرتے، زیورات سے جھولیاں بھرتے اپنے چھروں کورنگدار دیکھ کر دھمالیں ڈال رہے تھے۔اور رامو ایک کونے میں بیٹھا یہ سب دیکھ کر ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔
اسے لگا جیسے اس وقت وہ خودوہاں نہیں ہے کوئی اور ہے جس کا نام رامو جو یہاں لوٹ مار کرنے آیا ہے۔
رات کافی بھیگ چکی تھی اور لوٹ بھی کافی جمع ہوگئی تھی اس لیے لوگوں نے تھک ہار کے واپس جانے کی سوچی اور اپنا مال و دولت سنبھالتے عورتیں گھسیٹتے ،قہقہے لگاتے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔رامو کو پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ جنگل میں اکیلا رہ گیا تھا جو سانس لیتا تھا ۔
آس پاس تو زندہ کچھ بھی نہیں تھا۔وہ خاموشی سے اٹھا پھر اچانک یہ ہواکہ درختوں کے ایک جھنڈکے نیچے اسے سلطانہ کے ماں باپ اور بھائی کی کٹی ہوئی لاشیں نظر آگئیں ۔رامو کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور اس نے تمام افرادکو الٹا پلٹا کر غور سے دیکھا مگر سلطانہ وہاں نہیں تھی ۔وہ کہاں تھی وہ سوچ سوچ کر باؤلا ہونے لگا۔نہ جانے کیوں اس کے منہ سے ایک آواز نکلی آوازدے کہاں نورجہاں وہ اپنے بازوؤں میں منہ دے کر سسکنے لگا۔
چلتے چلتے اسے ایک ٹھوکرلگی تو وہ ایک خاردار جھاڑی پر جا گرا۔پھر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے جھاڑی نے اس کے پاؤں پکڑلیے ہوں۔جھاڑی دھیرے دھیرے ہلنے لگی اور اس کے نیچے سے ایک وجوددکھائی دینے لگا ۔یہ تو وہی وجود تھا جس کی اسے تلاش تھی۔رامو گنگ ہوکر ساکت کھڑا رہ گیا اس کی نظریں اس پر جم کر رہ گئیں۔
اس نے تو کبھی سلطانہ کے چہرے کو بھی نظر بھر کے غور سے اچھی طرح مکمل طور پر دیکھا نہیں تھا۔
کہاں یہ کہ وہ اس کے سامنے مکمل طور پر بے لباس پڑی تھی۔متوحش آنکھوں والی خوف سے لرزتی ہوئی منہ سے عجیب سی خر خر کی سی آوازیں نکالتی یہ غیر انسانی دکھتی مخلوق کیا وہی تھی؟خون آلودٹوٹے ہوئے پروں والے کسی فرشتے کواس نے اس سے پہلے تو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ سلطانہ کی کئی ہوئی ناک اور چھاتیوں کی جگہ اب خوفناک سوراخ تھے۔اسکی ٹانگوں کے بیچ کے حصے سے آگ کا سرخ دریا بہہ کر ٹانگوں پرنشان چھوڑتا خشک ہوتا دکھائی دیتا تھا۔
شاید سلطانہ اسے تک رہی تھی پہچان رہی تھی مگر رامو سے وہ پہچانی نہیں جارہی تھی۔رامو کے منہ سے ایک دلدوزچیخ نکلی اور آسمان میں چھید کر گئی۔وہ تھر تھر کانپنے لگا اور جلدی سے سلطانہ کے جسم پر قریب پڑا ایک کپڑا ڈال دیا۔
نور جہاں کی آنکھیں جذبات سے عاری تھیں اور رامو بھس بھس کر کے رورہا تھا۔
”ارے رامو پتر تو کہاں رہ گیا تھا۔
تیرا باپو تو کب سے گھر آیا ہوا ہے۔دیکھ تو سہی وہ میرے لیے کیا کیا لایا ہے؟رامو کو گھر میں گھستے ہی ماں کی کھنک دار آواز سنائی دی۔
رامو نے ماتا جی کی طرف دیکھا۔یہ اس کی ہی ماتا تھی؟اسے پل بھر کے لیے تو یقین ہی نہیں آیا کہ یہ زنانی جو سونے کے پیلے پیلے جھمکے ،کڑے اور چوڑیاں پہنے کسی نئی نویلی دلہن کی طرح اترااترا کر اپنے پتی کی طرف دیکھے جارہی تھی اس کی اپنی ماں تھی۔
گھر میں چاروں طرف سامان ہی سامان بکھرا ہوا تھا۔جسے اس کے چھوٹے بہن بھائی ہاتھ لگا لگا کر دیکھ کر خوش ہورہے تھے۔ ایک جشن کا ساسماں تھا۔
بس رامو اب تو نے جھاڑو لگا نا چھوڑدینا ہے۔کوئی لوڑنہیں ہمیں لوگوں کے گند صاف کرنے کی دیکھ تو سہی تیرا باپو ہمارے لیے کیا کیا لایا ہے؟ ہائے میں مرجاواں میرے تو سارے ارمان ہی پورے ہوگئے ہیں ۔کیسے ہمارے دن پھرے ہیں ؟ماتا نے جھوم کر دیوی کے آگے ماتھا ٹیکا اورپیار بھری نظروں سے اپنے پتی مہاراج کی طرف دیکھنے لگی جس نے اسے اتنا شانت کر دیا تھا۔

”اوے رامو تو ہمارے ساتھ کیوں نہیں آیا؟کہاں رہ گیا تھا؟ میں نے بڑا ڈھونڈا تجھے ۔کیا کوئی بڑا مال ہاتھ لگ گیا تھا؟باپو نے رامو کو چپ چاپ کھڑے دیکھ کر ٹوک دیا۔
”ہاں کچھ لایا بھی ہے یا ہمیشہ کی طرح خالی ہاتھ․․ ماتا نے بات ادھوری چھوڑ کر ٹھٹھا اڑیا اور پھر اپنے پتی کے آگے تازہ تازہ پکی ہوئی کھیر کا پیالہ رکھ دیا۔آج تو اس کا خوامخواہ ہی اپنے پتی کی عزت کرنے کوجی چاہے جارہا تھا۔

”خالی ہاتھ نہیں آیا ماتا جی ۔بہت قیمتی سامان لایا ہوں․․“رامو یکدم جیسے نیندسے جاگ کر بولا۔
باپو مسکرا دیا۔ لے بھئی بسنتی لگتا ہے آج تیرے پتر نے بھی الاہمہ اتار دینا ہے۔دیکھیں تو سہی کیا کیا لایا ہے ۔باپو نے اپنی پیلی پیلی بتیسی کھولی اور کھیر میں انگلیاں ڈال کر منہ سے آوازیں نکالتا اسے چاٹنے لگا۔
”ارے اب دکھا بھی کہاں چھپا رکھا ہے مال دیر کیا ہے؟ ماتا بے چینے سے بولی ۔
رامو نے سارے گھر پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی ۔پھر آرام سے اٹھا اور گھر سے باہر چلا گیا چند ہی لمحوں بعد جب وہ لوٹا تو اس کے بازوؤں میں ایک بڑا سا گٹھڑا تھا جسے اس نے کٹیا کے بیچوں بیچ رکھ دیا اور چپ چاپ اسے گھورنے لگا۔ارے باپ رے․․․ اس میں کیا ہے رامو بھیا؟ چھوٹی بہن کی مارے اشتیاق کی چیخ ہی نکل گئی۔
رامو نے احتیاط سے گٹھڑی کوزمین پر سیٹ کیا اور دھیرے دھیرے اس کے بل کھولنے شروع کر دئیے۔

Browse More Urdu Literature Articles