Sar E Raah Milay Koi - Article No. 969

Sar E Raah Milay Koi

سرِ راہ ملے کوئی - تحریر نمبر 969

وہ سوچ میں پڑگیا۔تمام کچرے پر اس نے نظر دوڑائی اب وہاں اس کے مطلب کو کوئی شے نہیں تھی۔

منگل 13 اکتوبر 2015

خدیجہ مغل:
سردی بہت ہے۔اس نے پلاسٹک کی بوتل اٹھا کر بوری میں ڈالی اور بوری کو ہاتھ میں اٹھا کر اسکے وزن کو محسوس کیا۔
وہ سوچ میں پڑگیا۔تمام کچرے پر اس نے نظر دوڑائی اب وہاں اس کے مطلب کو کوئی شے نہیں تھی۔کاغذ والی بوری کو اس نے زمین پہ رکھا اور خود بھی وہیں پاس بیٹھ گیا۔اس نے ایک نظر آسمان کی جانب دیکھا۔
۔اسے سردی زیادہ محسوس ہو رہی تھی سورج دھند میں کہیں چھپ ساگیا تھا۔مٹی کی ڈھیری اسے کسی برف کی مانند ٹھنڈی لگ رہی تھی۔اسے بس ایک ہی فکر ہی ستائے جا رہی تھی کہ اسے آج اتنے پیسے مل جائیں کہ اسکا آج کا گزارا ہو جائے۔اگر پڑیا کے پیسے پورے نہ ہوئے ۔۔۔یہ سوچ ہی اس کے لیے اذیت ناک تھی۔
سامنے سڑک پہ بچے سردی سے بے نیاز کھیل رہے تھے۔

(جاری ہے)

وہ ایک دوسرے کوپکڑ رہے تھے گرتے ہنستے اور کودنا شروع کررہے تھے۔


سڑک پر گنوں کا ٹرک گزرہا تھا وہ جلدی سے اسکے پیچھے بھاگا اور اپنی بوری سنبھالتے ہوئے اس نے بمشکل ہی ایک گنا کھینچا۔۔
اس نے شکر ادا کیا اور اپنی بوری اٹھا کر چل دیا ۔پتا نہیں آج ایک خوراک کے پیسے بن سکیں گئے کہ نہیں ردی اور پلاسٹک کی بوتلیں اسکی توقع سے کم تھیں۔
چاچا کتنے پیسے بنے؟اس نے بہت آس سے چاچے کو دیکھا
بیس روپے یہ لے۔
چاچے نے پیسے اسکی طرف بڑھائے
اتنے تھوڑے چاچا۔۔۔اس نے گلہ کیا
تیرے مال کے اتنے ہی بنے تھے جو تجھے دے دیے۔زیادہ باتیں نہ کر۔چاچے کو غصہ آیا
کل زیادہ مال لاؤں گا آج زیادہ دے دے۔
نشئی کا کیا بھروسہ کیا بات کرتا ہے؟
چاچا شام ہو رہی ہے۔اب میں کہاں سے لاؤں؟بھوک بھی بہت لگی ہے۔اس نے لجاجت سے کہا
بہت کمینہ ہے تو۔۔۔
چاچے نے دس کا نوٹ اسکی بڑھایا جو اس نے جٹ سے پکڑ لیا۔
ذلت اس کا مسئلہ نہ تھی۔شاید اب تو عزت ،ذلت اسکے لیے بے معنی چیزیں تھیں۔اس نے پیسے جیب میں ڈالے اور ڈیرے کی طرف رُخ کر دیا اسکے قدم تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔نشہ اسے ابھی سے ہونے لگ گیا تھا۔
آگیا شیرا۔۔ماجد خوشی سے بولا۔وہ جونہی اپنے ٹھکانے پہ پہنچا تو ماجد بولا
اس نے جلدی سے پرالی کی ایک تہہ لگائی اور اس پہ بیٹھ کر اپنے روز کے کام میں مصروف ہو گیا جیسے اور کوئی وہاں موجود ہی نہ ہو۔
آہستہ آہستہ اسکی آنکھیں بند ہو رہی تھیں اور وہ سو گیا۔
یہ شخص کتنا جلد باز ہے ہر کام کی جلد بازی رہتی ہے۔جذبات کے اظہار میں خاص کر۔ماجد نے ایک نظر اسے دیکھا ۔وہ مدہوش پڑا تھا ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے آنسو اسکے گالوں پہ جم چکے ہوں۔
گلی میں ایک تماشا لگا ہوا تھا۔سارے بچے اسکے گرد جمع تھے۔دروازوں سے عورتوں کے سر باہر نکلے ہوئے تھے سب تماشا دیکھ کر خوش ہو رہی تھیں۔

اسکا باپ منصور اس پر تھپڑوں،مکوں کی بارش کررہا تھا اس نے دونوں ہاتھ اپنے سر پر رکھے ہوئے تھے اور زمین پر جھکا ہو اتھا۔
جائے گا اب۔۔۔بتا اب جائے گا۔ابو نے اپنا جوتا اتار لیا اور اسے مارنے لگے۔اس نے سختی سے اپنا منہ بند کیا ہو اتھا آنسو آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔اسے تو عادی ہو جانا چاہیے تھا مگر ہر دفعہ وہ ایسے ہی کرتا چپ کرکے مار کھا لیتا۔

چل اندر۔۔ابو نے اسکا بازو پکڑ کر گھر کے اندر دھکا دیا ماں دروازے کے ساتھ کھڑی رو رہی تھی ہر دفعہ ایسا ہی ہوتا ہے ۔وہ اپنے بیٹے کو کبھی بچا نہیں سکی تھی اور آج بھی۔۔۔۔
اب نہیں جائے گا۔بس کردیں مر جائے گا۔اسکے اندر آتے ہی ماں اسکے سامنے آئی
ہماری سات نسلوں میں اس جیسا مرد کوئی پیدا نہیں ہوا یہ نہ جانے کس کی غلطی کا نتیجہ ہے۔
ہر دفعہ تیرے کہنے پہ ہی چھوڑ دیتا ہوں۔
میں وعدہ کرتی ہوں آج کے بعد نہیں جائے گا۔ماں نے ان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔وہ چپ چاپ مار کھاتا رہا۔
آج کے بعد یہ باہر گیا تو میں تم دونوں کو نہیں چھوڑوں گا۔یہ میرا تمھارے ساتھ وعدہ ہے۔یہ کہہ کر وہ جلدی سے گھر سے باہر چلے گئے۔
تو ان جیسا کیوں نہیں ہو جاتا۔کیوں جاتا ہے بار بار۔کیوں کرتا ہے با ربار؟اماں اسے کمرے میں لے آئیں تھیں۔
سب بہن بھائی اسے نفرت کی نگاہ سے تک رہے تھے۔
چہرہ جگہ جگہ سے زخمی تھا جسم پر جگہ جگہ خراشیں آئی تھیں اس کی ایک آنکھ سوچ کر بند ہو چکی تھی اور جسم جگہ جگہ سے درد کر رہا تھا۔
یہ شریفوں کا کام نہیں ہے پتر۔اماں اسے سمجھا رہی تھی
نہیں جاؤں گا صرف آپکی وجہ سے ۔اسکے بعد وہ اوپر کی طرف دیکھنے لگا۔ماں نے خوشی سے اپنے سینے سے لگا لیا۔

اسے نہلایا صاف کپڑے پہنائے۔
آج سفید سوٹ پہن کر وہ پہچانا نہیں جا رہا تھا۔اماں نے خوشی سے اسکے ہاتھ چوم ڈالے
وہ ابا کا ذکر بہت ہی کم کیا کرتا تھا۔اسے ابا سے ڈر لگتا تھا۔لیکن پھر بھی اس نے بہت مار کھائی تھی باپ سے۔
آج کافی عرصے بعد اس نے جمعہ ادا کیا جب گھر واپس آیا تو سب ابا کے پاس جمع تھے۔اچانک ابو چلے گئے۔اسے ان سے اتنا پیار تو نہ تھا مگر اسے دکھ بہت ہو اتھا۔

ابو کے جانے کے بعد اماں با لکل ہی چپ ہو گئیں تھیں۔
امی کیا ہو گیا ہے آپکو۔؟وہ اماں کے پاس بیٹھا ہو اتھا اماں چپ چاپ کام میں مصروف تھی۔وہ اماں سے چھوٹی موٹی باتیں کرکے اماں کا دل بہلا لیا کرتا تھا۔
سردیوں کی راتیں بہت لمبی ہوا کرتی ہیں ۔اسکی چارپائی اماں کی چارپائی کے ساتھ تھی اس نے محسوس کیا کہ اماں ابھی تک سوئی نہیں۔
اس نے کروٹ بدلی اور لائٹ آن کی تو اماں رو رہی تھیں۔
کیا ہوااماں۔۔۔؟وہ اماں کے پاس آگیا۔کچھ نہیں پتر۔تو سوجا۔رات کتنی گہری ہو گئی ہے۔اماں نے چہرہ پھیر لیا ۔اور کھانسنا شروع کردیا
آپ ٹھیک نہیں ہیں اماں۔کیا بات ہے؟مجھے تو بتائیں۔
اس نے پانی کا گلاس ماں کو دیا اور ان کی ٹانگیں دبانے لگا
چھوڑ پتر۔تو میری فکر نہ کیا کر۔
میں ٹھیک ہو جاؤں گی۔تو بس اچھے سے اپنی پڑھائی کر
بس دعا کر اماں میرا رزلٹ آنے والا ہے۔پھر میں اچھے کالج میں داخلہ لوں گی۔وہ سوچ رہا تھا کہ صبح ضرور اماں کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جائے گا۔
پھر وہ ،امی اور ہسپتال جیسے ساتھی بن گئے تھے۔اماں ٹھیک نہیں ہورہی تھی۔کسی کو سمجھ نہ آرہی تھی کہ اماں کو کیا ہوا ہے۔کئی دوا بدلی مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔

وہ پر امید تھا مگر اماں کی مایوسی بڑھتی جارہی تھی۔
جاتی سردیاں جیسے پھر واپس آگئیں تھیں بارشوں کی وجہ سے آج کتنے دن بعد دھوپ نکلی تھی وہ گھر سے بس ضروری کام سے جاتا ورنہ امی کے پاس ہی رہتا تھا۔
بھابھیاں نہ اسے بلاتی تھیں نہ اسکے کام کرتی تھیں ۔بھائی رات کو آتے بس سلام دعا کرتے اوراپنے کمروں میں چلے جاتے۔وہ امی کے بے حد قریب ہو گیا تھا۔

آج کافی دنوں بعد وہ اماں کو چھت پہ لایا تھا۔وہ بہت کمزور ہو گئیں تھیں۔ان کی صحت پہلے کی طرح نہیں رہی تھی۔
وہ اپنی ماں سے بہت پیار کرتا تھا۔اور چاہتا تھا کہ وہ جلد سے جلد ٹھیک ہو جائیں۔
#۔۔۔۔۔#
اماں۔۔۔اس نے اماں کو پکارا
اماں۔ایک بار پھر آواز دی۔کوئی جواب نہ ملا
اماں۔وہ خود اٹھ کر پاس آیا۔اماں۔۔۔اس نے امی کو ہلایا
امی۔
۔۔وہ رونے لگا تھا
نہیں۔۔۔وہ چینخا تھا
اس کا شور سن کر سب لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔لیکن وہ سب سے بے خبر تھا۔
اس کی سسکیاں فضا میں پھیل رہی تھیں۔آہستہ آہستہ اسکا چہرہ زرد ہوتا جارہا تھا اسکی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں۔سارے لوگ اسکے ساتھ شریک تھے۔
بس یار کہیں دل پھٹ نہ جائے۔انہوں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ ماں سے الگ نہ ہوا۔

ماں کو گزرے چار ماہ ہوچکے تھے لیکن وہ اس صدمے سے باہر نہ آیا تھا سارا دن وہ آسمان کی جانب دیکھتا رہتا تھا اور کبھی ماں کے بستر پہ لیٹ جایا کرتاتھا۔اسے پتا ہی نہیں تھا کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔گرمی شروع ہو رہی تھی۔
وہ صرف زندہ رہنے کے لیے کھانا کھاتا تھا ۔کبھی کبھی اسے چکر آجاتے تو چکر کھا کر گر جاتا تھا۔حبس زدہ کمرے میں لیٹے ہوئے اسے کئی گھنٹے ہو گئے تھے۔
اچانک اسے چینخ سنائی دی۔وہ چونک گیا
رات گہری تھی اسے کچھ دیر لگی تھی آواز پہچاننے میں۔وہ باہر آیا۔بلب جلایا اور دیکھا بھابھی اپنے بستر کے پاس کھڑی رو رہی ہیں۔وہ بھاگ کر ان کے پاس آئیں۔اور اسے بازو سے پکڑ لیا۔
کیا ہوا بھابھی۔۔۔؟وہ پریشان ہوا
ڈر لگ رہا ہے۔وہ بولیں
ان کا دوپٹا فرش پہ گرا ہو اتھا ابھی وہ اسے اٹھانے کے لیے جھکا ہی تھا کہ کسی نے اسے دھکا دیا۔

کمینے۔بد فطرت۔اور چھوٹے بھائی نہ جانے کہاں سے آکر اسے مارنے لگے۔ان کے منہ سے گالیان جاری ہو گئیں۔
اپنے گھر پر ڈاکہ،تجھے کسی کی عزت کا احساس نہیں۔
کافی دیر تو اسے سمجھ نہ آئی ،جب سمجھ آئی تو کافی دیر ہو گئی تھی۔اس نے اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہا مگر بھائی کی آواز اور بھابھی کا روا اس میں اسکی آواز دب سی گئی۔محلے کے لوگ اکٹھے ہو چکے تھے۔
سب نفرت سے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔
میرا باپ با لکل ٹھیک کہتا تھا تیرے جیسا تو سات نسلوں میں پیدا نہیں ہوا کتے کوئی اور جگہ نہ ملی تھی۔سب لوگ اسے حقارت سے دیکھ رہے تھے۔اس نے بلند آواز سے بول کر بتان چاہا کہ یہ غلط ہے۔مگر شاید دکھ سے اس سے بولا ہی نہ گیا پھر وہ کیسے کمرے تک پہنچا اسے نہیں پتا جب ہوش آئی تو اپنی ماں کے بستر پہ لیٹا پایا۔
۔۔
ایسی ذلت میرے لیے کیوں؟شکوہ آنسوؤں کے ساتھ بہہ نکلا جب وہ باہر جانے لگا تو بھائی اور بھابھی باورچی خانے میں اکٹھے چائے پی رہے تھے۔انہیں پتا ہی نہیں چلا کہ وہ دروازے کے پاس کھڑا ہے۔
چلو اسکا قصہ تو تمام ہو گیا۔اب رہ گئے بڑے بھائی ۔وہ آئیں تو انہیں مار مار کر گھر سے باہر نکال کریں گئے۔پھر ساری جائیداد ہماری ہو گی ۔یہ چھوٹے بھائی کی آواز تھی۔

مجھے یقین ہے اس دفعہ یہ جائے گا تو پھر ادھر کا رخ نہیں کرے گا۔اسے لگا دو شیطان بات کررہے ہیں۔
پھر واقعی اس نے وہاں کا رخ نہیں کیا تھا۔جگہ جگہ دھکے کھاتا وہ آج اسی دکان میں تھا۔
اسے پتا نہیں تھا کہ وہ کہاں جائے گا۔ماں کا شیرا آج پھر نشئی بن گیا تھا۔
آگیا دھکے کھا کر۔ماجد نے اسے گالی دی
قسمت میں لکھے ہی دھکے ہیں خود تو نہیں کھاتا میں۔
اس نے پرالی پہ اپنی جگہ بنائی۔
#۔۔۔۔۔۔#
جسم بہت درد کر رہا تھا۔وہ اٹھ کر کھڑا بھی نہ ہو پا رہا تھا۔جب اسکی آنکھ کھلی تو صبح کے دس بج چکے تھے۔ماجد اسے کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔اسے شدید پیاس محسوس ہو رہی تھی ۔مگر اس میں ہمت نہ تھی کہ وہ خود اٹھ کر پانی پی لے۔
اسے اپنے جسم میں آگ جلتی محسوس ہو رہی تھی۔یہ سب اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔
ابھی جمعہ کی نماز شروع ہونے میں دیر تھی۔اسے سانس لینے میں بے حد دشواری ہو رہی تھی ۔
کچھ دیر تو اسے ہوش ہی نہ رہا اسے تب ہوش آیا جب ماجد نے اسے زور سے ہلایا۔
شیرا۔۔وہ چینخ رہا تھا۔شیرے نے آنکھیں کھولیں
یا ر تو آگیا۔۔کب سے ڈھونڈ رہا تھا تجھے۔وہ اٹک اٹک کر بولا
شیرے نے جیب سے چند سکے نکالے اور ماجد کو تھما دیے
یہ کیا۔
۔۔؟
جا یا ر ایک ٹھنڈی بوتل لے آ۔۔۔بہت دل کر رہا ہے۔
لاتا ہوں ۔۔پہلے تو ادھر آجا۔۔اس نے چھاؤں کی طرف اشارہ کیا۔
نہیں پہلے تو بوتل لے آ۔۔۔شیرے نے ضد کی
اچھا جاتا ہوں ۔۔۔تو آگے ہو جا۔۔۔دیکھ گرمی کتنی ہے۔
اچھا۔۔۔
وہ جلدی سے دکان پہ گیا اور شیرے کے لیے ٹھنڈی بوتل لے آیا۔جب وہ واپس آیا تو شیرا بے ہوش ہو چکا تھا ۔
سال کا ایک دن اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا مگر اس کا دوست بغیر بوتل پیئے ہی چلا گیا تھا وہاں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا ۔
سورج اپنی گرمی سمیٹ چکا تھا۔مگر اس کا اثر ابھی بھی تھا۔شیرا اسے یوں ہی چھوڑ جائے گا ماجد کو یقین نہیںآ رہا تھا۔
بہت کوشش کرکے اس کے گھر کا پتہ چلا اسے اپنی ماں کے قدموں کے طرف دفن کیا گیا اور مدینہ شریف کی مٹی اسکے کفن پہ ڈالی گئی۔۔
پتہ نہیں وہ جلد باز تھا یا اب بھی بزدل نکلا تھا۔وہ سوچ رہا تھا۔
قبر پہ پھولوں کی مالا چڑھاتے ہوئے اسے لگا جیسے اسکی قبر پر رحمت برس رہی ہو۔دونوں ہاتھ اٹھا کر وہ اسکی مغفرت کی دُعا کرنے لگا۔
اسے یقین تھا وہ رحیم و کریم ذات اسے ضرور بخش دے گی۔کیونکہ وہ ذات بہت حلیم و شفیق ہے۔
ختم شد!

Browse More Urdu Literature Articles