Talash - Article No. 968

Talash

تلاش - تحریر نمبر 968

کھڑکی کے پار برستی بارش میں وہ خود ایک بارش کی مانند تھی، اسکی اُداسیاں، ویرانیاں اور تنہائیاں سب اسے تنگ کر رہی تھیں۔

پیر 12 اکتوبر 2015

خدیجہ مغل:
لکھی ہے یہ غزل صرف تیرے لیے
دیوانے بنے بھی تو صرف تیرے لیے
کسی کو نہیں دیکھیں گئی یہ آنکھیں
نظریں ترسیں گئی تو صرف تیرے لیے
ہر سانس میں یاد کریں گئے تجھے
یہ سانسیں چلیں گئی بھی تو صرف تیرے لیے
ہر چیز سے پیارے لگتے ہو تم
میں نے پیار سیکھا بھی تو صرف تیرے لیے۔۔۔
کھڑکی کے پار برستی بارش میں وہ خود ایک بارش کی مانند تھی،اسکی اُداسیاں ،ویرانیاں اور تنہائیاں سب اسے تنگ کر رہی تھیں ،بے چین کر رہی تھیں ۔
کاش وہ وقت لوٹ آئے ایک بار وہ وقت لوٹ آئے شاید وہ اپنے آپکو مکمل کر سکے اسکی آنکھوں سے آنسو جاری تھے جسے اس نے روکنے کی نا کام کوشش بھی اب چھوڑ دی تھی اس نے کروٹ بدلی اور اُٹھ بیٹھی ۔

(جاری ہے)

یہاں رہنا اسکے لیے بے حد مشکل بنتا جا رہا تھا ۔اپنا تھکا ہارا وجود سمیٹتی وہ صحن میں آگئی شاید وہ اسے یہاں یاد نہ آئے مگر اب بھی اسکے ذہن میں تھا اسکے دل میں تھا ۔

اسکی ایک ایک بات اسے یاد آرہی تھی ۔۔اس نے اپنے ماضی سے پیچھا چھڑوانے کی بے حد کوشش کی مگر وہ ہار گئی تھی اور ہر روز ہارتی آرہی تھی ۔ایسے میں وہ کیا کرتی وہ کچھ سمجھ نہ پاتی ،وہ مجبور ہو چکی تھی ۔اسکا انتظار کرتے کرتے اسکی آنکھوں کے آنسو بھی خشک ہو چکے تھے ،وہ ٹوٹ کر بکھر چکی تھی ،وہ اپنی زندگی کسی دوسرے آدمی کے ساتھ گزارنے کو تیار ہی نہ تھی ،وہ اسکے بغیر کیسے جیتی؟اسے جینا تو تھا ہی ۔
۔تو کیا اسکے بغیر۔۔۔؟
اسکا انتظار وہ کب تک کرتی۔۔؟کب تک ؟آخر اس نے فیصلہ کر ہی لیا
اب اس لاحاصل انتظار کو کتم کرنا ہی تھا مس ارویٰ اب مس ارویٰ کی بجائے مسز واصف بن چکی تھیں۔۔
اسکی آنکھوں نے اب حسین خواب دیکھنے چھوڑ دیے تھے ،اسکا انتظار کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔اور اب وہ اسکا انتظار کرتی ہی کیوں ۔۔۔؟وقت نے کیا کم ستم ظریفی دیکھائی تھی جو وہ اب اپنے آپ سے ایسا کرتی۔
۔
اپنے دل پہ پتھر رکھ کر وہ بس جی رہی تھی یا زندگی اسے جی رہی تھی وہ جان نہ پائی۔۔۔
#۔۔۔۔#
تم با ہر کے ملک کیوں جانا چاہتے ہو۔۔؟کچھ میرا بھی خیال کر لو۔۔
ارے بابا۔۔۔میں کون سا تمھیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔تمھیں بھی ساتھ لے جاؤں گا نا۔۔۔وہ دونوں اسوقت لان میں بیٹھے پڑھائی کے ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہے تھے
دیکھو۔۔۔میں تمھیں جانے نہیں دوں گئی۔
۔۔ارویٰ نے اسکے ہاتھ سے نوٹس چھینے
پریشان کیوں ہو رہی ہو جان۔۔۔ڈونٹ وری اب اتنی جلدی بھی نہیں جارہا میں۔۔۔
مذاق مت کرو۔۔۔تم نہیں جاؤ گئے ۔۔بس میں نے کہہ دیا ۔ارویٰ غصے سے بولی
یار۔۔۔تم تو غصہ ہی کر گئی۔میں نہیں جاتا اب تو خوش ہو جاؤ۔۔۔اسکے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تو ارویٰ مسکرا اٹھی
میں نہیں چاہتی کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے دور ہوں۔
۔
میری جان میں کہیں نہیں جاتا ۔ہمیشہ آپکی بانہوں میں ہی رہوں گا۔چھیڑتے ہوئے بولا تو ارویٰ نے ہولی سی چت اسکے کندھے پہ ماری دونوں ہنستے ہوئے کلاس کی جانب بڑھ گئے۔۔۔
ارویٰ اپنی بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد سمجھ دار تھی ۔سب ہی اسے بے حد پیار کرتے تھے ،اس نے ماں باپ کو کبھی بھی کوئی شکایت نہ دی تھی ۔اپنی چھوٹی بہنوں کو بھی ویسی ہی تربیت دیتی۔

بچے جوں جوں بڑھے ہو رہے تھے ان کی فکر بڑھتی جا رہی تھی ۔بیٹیوں کے فرائض کی پریشانی ماں باپ کو نہیں ہو گی تو کسے ہو گی؟جب سے ارویٰ نے بی۔ایس کا امتحان پاس کیا تھا تب سے ہی انہیں اسکی فکر ستا رہی تھی
معمول کلرک کی تنخوا ہ سے گھر کا بجٹ بہت اچھے طریقے سے چل رہا تھا ۔ابا کو ارویٰ کی پریشانی تھی انہوں نے کئی بار بیگم ممتاز سے بھی بات کی تھی ۔
وہ خاموش ہو جاتی تھیں۔اب وہ بیٹی کو جہیز کے بغیر تو رخصت نہیں کر سکتے نا۔۔۔ان کی یہ بات با لکل درست تھی۔آجکل مہنگائی کے دور میں وہ اتنا سب کچھ نہیں کر سکتے تھے انہوں نے کوشش کر کے ارویٰ کے لیے سامان بنانے کا ارادہ کر ہی لیا۔۔
دن پہ دن گزرتے چلے گئے اسی طرح دو سال بیت گئے ۔اب تو اماں کو بھی پریشانی ہو تی تھی اور ارویٰ یہ کہہ کر اپنی جان چھڑوا لیتی کہ ابھی بہنیں چھوٹی ہیں
اسکے انتظار میں اسکی آنکیھں خشک ہوتی جا رہی تھیں۔
لیکن وہ۔۔وہ نہ جانے کہاں چلا گیا تھا۔۔۔؟
اب تو اسکی آنکھوں نے اسے دیکھنے کی آرزو ہی چھوڑ دی تھی کہ وہ آئے گا اور اسے اپنا بنا لے گا۔راتوں کو چاند کی چاندنی سے باتیں کرنا،ستاروں کو گھورتے رہنا اب اسکی عادت بن گئی تھی ۔ہر طرف صرف وہ ہی وہ تھا جو صرف اسکا وہم تھا۔۔۔
چاہتا ہوں جو وفا طنیتِ دلبر میں نہیں
ہے وہ مطلوب مجھے جو کہ مقدر میں نہیں
آج صبح سے ہی وہ کمرے میں تھی سر میں درد سا ہو رہا تھا ۔
شاید اسکی حالت مزید بگڑتی اس سے پہلے مما نے اسے دوا دے کر آرام کی غرض سے کچھ دیر اکیلے رہنے دیا کیونکہ کل شام میں اسے دیکھنے کچھ لوگ آرہے تھے ۔
شام کے وقت اسکی طبیعت میں کافی فرق آچکا تھا۔بہنوں کو کاموں میں لگا دیکھ کر وہ خوش ہو گئی۔رات کا کھانا بناتے ہوئے اسے امی نے بتا یا تھا کہ کل مہمان آئیں گئے تو گھر کی صفائی وغیرہ کا خیال وہ خود کرے اور اسے بھی تیار ہونے کی تنہبہ دی۔

اس نے خاموشی سے اپنا کام کیا اور اپنے کمرے میں آگئی۔۔
بیڈ پہ لیٹتے اس نے آنکھیں موند لیں ۔۔آج آخری بار اس نے اسد کے بارے میں سوچا ۔آج کے بعد میں کبھی تمھیں یاد نہیں کرونگی۔آج تو پورے چار سال ہو گئے ہیں اسد ۔۔اور تم ۔۔۔تم نے تو کہا تھا صرف دو سال۔۔۔نہ جانے تم کہاں ہو؟
خیر تم جہاں بھی رہو۔خوش رہو۔خدا تمھیں بہت خوشیاں دے میری یہی دُعا ہے تمھیں ۔

ایک بات یاد رکھنا ۔۔کسی کو اتنا بھی تنگ نہیں کرتے۔اس نے آنسو صاف کیے اور کروٹ بدل کر سونے کی کوشش کرنے لگی۔آج وہ خود کو بے حد ہلکی پھلکی محسوس کر رہی تھی ۔اور اپنے آنے والے کل کے بارے میں فکر مند تھی جو نہایت خوبصورت اور بے پناہ محبتیں ساتھ لانے والا تھا۔۔۔
#۔۔۔۔#
دیکھو یہ مذاق مت کرو۔۔۔ورنہ تم اچھی طرح سے جانتے ہو میں کرنے والی ہوں۔

میں سمجھتا ہوں لیکن پپا کو کون سمجھائے۔۔۔؟وہ بس اپنی ضد پہ اڑے ہوئے ہیں میں نے بہت کہا پپا کو مگر انہوں نے میری ایک نہ مانی اور۔۔۔
اس کا مطلب تم اپنے ڈیڈ کی بات مانو گئے؟رائٹ۔۔۔اسکی بات کاٹتے ہوئے بولی
کم آن ۔۔۔میں ڈیڈ کی بات نہیں مانتا۔۔۔
تو یہ سب کیا ہے۔۔۔؟
اے۔۔ناراض ہو گئی ہو؟اسکا بازو پکڑتے ہوئے بولا
تم کیا سمجھتے ہو؟کیا اس سب کے باوجود میں خوش رہ پاؤں گئی؟
میں آج پپا سے بات کروں گا۔
۔پلیز ناراض مت ہو۔۔۔
دیکھو اسد آج لاسٹ ڈے ہے ہمارا ۔تمھیں جو کرنا ہے کرو میں تمھارا انتظار کررہی ہوں ۔تم جا سکتے ہو۔۔
پریشان مت ہو میں ضرور آج ہی پپا سے بات کرتا ہوں۔اسے تسلی دیتا ہوا وہ گھر کو نکلا۔
وہ اسی لان میں بیٹھی اسکے واپس آنے کا انتظار کررہی تھی۔۔وہ نہیں جانتی تھی آج اسکی قسمت میں کیا ہونے والا ہے۔
اسکا انتظار کرتے کرتے شام ہونے کو تھی۔
اسے گھر بھی جاناتھا ۔اس نے اسد کو کال ملائی۔۔نمبر بزی۔۔ایک بار ۔۔۔دو بار۔۔۔تین بار۔۔۔آخر کب تک؟اس نے جھنجلا کر سیل کرسی پہ پٹخ دیا۔۔۔
شام کے پانچ بج چکے تھے۔۔کرسی پہ پڑے موبائل میں حرکت ہوئی۔۔۔
تم میرے لیے اتنا سا کام نہیں کر پائے۔۔۔یہ اُمید تو نہ تھی مجھے تم سے۔۔۔وہ رو رہی تھی اور وہ کسی مجرم کی طرح سر پکڑے بیٹھا تھا۔
ارویٰ پلیز رو مت پلیز۔
۔۔
کوئی حق نہیں ہے تمھیں مجھ سے بات کرنے کا ۔۔۔کچھ نہیں لگتی میں تمھاری۔۔۔نہیں سننی میں نے تمھاری آواز۔۔۔زور سے چلاتے ہوئے اس نے سیل کہیں دور پھینک دیا اور خود گٹنوں میں سر دیے زارقطار رونے لگی۔۔۔
وہ جانتا تھا اسکا ری ایکشن ایسا ہی ہوگا اسی لیے اس نے کچھ فاصلے سے ہی اسے کال ملائی تھی مگر اب وہ اسکے پاس آچکا تھا۔
ارویٰ۔
۔۔ارویٰ۔۔۔اسے ہوش میں لاتے ہوئے بولا تو ارویٰ سرخ آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی
کیوں آئے ہو یہاں۔۔۔؟چھوڑ دو مجھے۔۔۔کیوں آئے ہو تم؟وہ روتے ہوئے بولے جا رہی تھی
اسے کرسی پہ بٹھاکر اسے پانی پلانے کوشش کرنے لگا۔۔۔مگر اس نے انکار کر دیا۔میں ٹھیک ہوں ۔کچھ نہیں ہوا مجھے۔آپ جایئے اپنے گھر اپنے پپا کے پاس جن کو آپکی بے حد ضرورت ہے۔
۔۔میرے پاس آپکے لیے کچھ نہیں۔۔
ارویٰ ۔۔۔بس ۔۔۔اب میں کچھ نہیں سنوں گئی۔۔کندھے سے اسکا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے بولی
وہ چپ کر گیا۔۔
میں اتنی پاگل یا چھوٹی بچی نہیں ہوں جو سمجھوں نہ کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔۔۔؟اپنے آپ سے تم نے خود مجھے الگ کیا ہے میں نے نہیں۔۔۔یاد رکھنا۔۔۔
ایسا مت کہو ارویٰ ۔۔میں تمھیں اپناؤں گا ۔

بڑی بڑی باتیں مت کیا کرو اسد۔۔۔تم جانتے بھی ہو تمھارے ڈیڈ۔۔۔
ڈیڈ مان جائیں گئے۔دیکھ لینا۔۔
دیکھتے ہیں۔کل مجھے بتا دینا تمھارے ڈیڈ نے کیا جواب دیا ہے؟
آؤ میں تمھیں گھر چھوڑ آؤں۔۔۔اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا تو اس نے ہاں کہہ دی اور اسکے ساتھ چلنے لگی۔۔۔
کوئی نہیں جانتا تھا کہ کل کیا ہونے والا ہے۔
اسد کی ٹکٹ آچکی تھی اور ٹھیک تین دن بعد اسے یہاں سے چلے جانا تھا۔
وہ خود بے حد پریشان تھا ۔وہ کیسے بلاتا اسے ملنے کو۔۔آخر اسے بتانا تو تھا ہی ۔اس نے اسے شام کا وقت دے دیا اور وہ شام نہ ہونے کی دعائیں کر رہا تھا۔۔۔
شام تو ہونی ہی تھی ۔۔سو ہو گئی اور اب وہ دونوں با لکل خاموش ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔
کیا بات ہے اتنی خاموشی۔۔۔؟تم تو اتنے خاموش رہنے والے ہی نہیں ۔بات کیا ہے؟ارویٰ سے رہا نہ گیا تو اس نے پوچھ ہی لیا۔
۔۔
ارویٰ۔۔میری بات۔۔۔میری بات غور سے سنو۔۔۔
بات کیا ہے؟تم اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو۔۔۔؟
ارویٰ تم میرا انتظار کرو گئی؟اس نے سیدھی سیدھی بات کر ڈالی
مطلب۔۔۔۔تم۔۔۔جا رہے ہو؟
اس کو چھوڑو جو پوچھا ہے بتاؤ نا۔۔۔
تم جا رہے ہو۔۔۔؟
ہوں۔۔۔ہولے سے سر ہلاتے ہوئے بولا۔۔۔
ارویٰ اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔
۔۔
تم مجھے ایسے چھوڑ کر نہیں جاسکتی ارویٰ۔۔۔وہ بھی کھڑا ہو گیا
کیوں نہیں جا سکتی۔۔۔کس حق سے تم مجھے روک رہے ہو؟
پلیز ارویٰ مت جاؤ۔۔۔وہ رونے لگا
درد ہوا۔۔۔ایسا ہی درد مجھے بھی ہوتا ہے۔کہیے کیا بات ہے؟اسکے دل میں اسکے لیے ذرا سی نرمی آگئی۔
ارویٰ میرا انتظار کرو گی؟
یہ کیسا سوال ہے؟آج وہ اسے تنہا چھوڑ کر جا رہا تھا اور اسکا انتظار کرنے کو بھی کہہ رہا تھا ۔
یہ کتنی عجیب بات تھی۔
میں تمھارے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔پلیز میرا ویٹ کرنا۔میں جلد واپس آؤں گا۔
میرے ممی پپا نے میری شادی کر دی تو۔۔۔؟
ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔وہ اسکے پاس آیا
کوشش کروں گی۔مگر جو قسمت میں ہوا دیکھا جائے گا۔۔۔اسے دلاسادیتے ہوئے بولی اور وہ اسی دلاسے میں خوش ہو گیا۔۔
ایک دوسرے کو گلے ملتے ہوئے وہ بھول گئے تھے کہ وہ ایک دوسرے کو آخری بار مل رہے ہیں۔

#۔۔۔۔۔۔#
ائیر پورٹ پہ کافی رش تھا۔کچھ لوگ آرہے تھے اور کچھ لوگ اپنے پیاروں کو چھوڑ کر جا رہے تھے۔وہ لوگ بھی کب سے واصف کے آنے کا انتظار کررہے تھے۔وہ بھی چپ چاپ ہاتھوں میں پھولوں کی مالا لیے کھڑی تھی۔آج واصف تین سال بعد پاکستان آرہے تھے سب بہت خوش تھے اور وہ۔۔۔وہ بھی تو خوش تھی۔کیونکہ اسکا ہمسفر آنے والا تھا۔
کافی دیر گزرجانے کے بعد انہیں کہیں دور واصف کا چہرہ نظر آیا ۔
سب کے چہروں پہ خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
لیکن ارویٰ کو واصف کے کوئی اور چہرہ نظر آیا تھا ۔جو بہت آشنا تھا وہ کوئی اور نہیں بلکہ وہ چہرہ اسد کا تھا۔وہ وہیں کی وہیں جم سی گئی۔۔کتنا بدل گیا تھا وہ۔شاید اسکے گھر والے بھی لینے آئے ہونگے۔آج اتنے سال گزرجانے کے بعد وہ اسے یوں دیکھ کر بے قرار سی ہو گء مگر یہ بے قراری اس کے لیے نہ تھی،وہ بہت جلد سنبھل گئی تھی ۔
اسد نے بھی شاید اسے دیکھ لیا تھا ۔وہ اسکے قریب آنا چاہتا تھامگر تب تک واصف ان کے پاس آچکا تھا۔۔
آج اسکا انتظار ختم ہو چکا تھا۔۔۔سب گلے شکوے ختم ہو چکے تھے۔۔۔اسکی تلاش کو منزل مل گئی تھی۔
وہ مسکراتے ہوئے واصف سے ملی۔اور اسکے ہاتھ میں اپنا ہاتھ ڈالے ایک ادا سے اس نے پیچھے کی جانب دیکھا جانتی تھی وہ اسے دیکھ رہا ہوگا۔۔اور ایسا ہی تھا۔
وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔
اگر کسی شے کی تلاش جلد شروع کر دی جائے تو وہ جلد ہی مل جایا کرتی ہے۔اسد ارویٰ کو تلاش کرکے بھی نہ حاصل کر سکا۔۔۔
وہ اسکی قسمت میں نہ تھی اور یہ بات اسکا دل بار بار کہہ رہا تھا۔
آنکھوں سے آئے آنسو صاف کرتے ہوئے وہ ڈیڈ کے گلے لگ گیا۔کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ آنسو کس لیے ہیں۔ارویٰ کو کھونے کے یا ڈیڈ سے ملنے کی خوشی میں۔۔۔
ختم شد!

Browse More Urdu Literature Articles