Teesra Pakistan - Article No. 902

Teesra Pakistan

تیسرا پاکستان - تحریر نمبر 902

ٹرین کی وِسل سُنتے ہی بابے رحیم نے اپنی بکریوں کو اکٹھا کرنا شُروع کر دیا ۔ ساری بکریاں گنتی کر کے ہانکتا ہوا ریلوے لائن کے پار اپنی بستی سے باہر واقع دربار کی طرف چل دیا ۔

پیر 8 جون 2015

عدنان جبار: تیسرا پاکستان ٹرین کی وِسل سُنتے ہی بابے رحیم نے اپنی بکریوں کو اکٹھا کرنا شُروع کر دیا ۔ ساری بکریاں گنتی کر کے ہانکتا ہوا ریلوے لائن کے پار اپنی بستی سے باہر واقع دربار کی طرف چل دیا ۔ دربار کے باہر پرانے پیڑ کے نیچے ملنگ بیٹھا اپنی بھنگ گھوٹ رہا تھا ۔ بابا رحیم معمول کے مطابق جا کے ملنگ کے پاس پڑے حُقے کے کش لگانے لگا ۔ پیڑ کی ساری شاخیں رنگ برنگی ڈوریوں اور کپڑوں سے ڈھکی ہوئی تھیں جنہیں دیکھ کے اکثر بابے رحیم کو اپنی ناکام مرادیں بھی یاد آ جاتی تھیں ۔

پہلی ڈوری اُس نے اپنی آسیب زدہ بیٹی کی صحت کے لئے باندھی تھی ، دوسری اپنے ناراض بیٹے کو منانے کے لئے جو سسرال کا ہو کے رہ گیا تھا اور تیسری ٹی بی کی مریض اپنی بیوی کی زندگی کے لئے مگر تینوں مرادیں نامراد ہی رہیں بیوی چل بسی بیٹے نے نہ آنے کی قسم کھائی تھی تو ماں کی مرگ پر بھی نہ آیا اور بیٹی آسیب کی نذر ہو گئی مولوی صاحب نے بکرے کی بھینٹ لے کر کہا تھا کہ سب ٹھیک ہوگا مگر اُس کی لاڈو رانی زندگی کی بازی ہار گئی ، آسیب جاتے جاتے کوئی بھاری نُقصان ضرور کر کے جاتے ہیں ، ایسا بھی مولوی صاحب نے بتایا تھا جو اُس بیچاری پر جانوروں کی طرح چھڑیاں برسا رہے تھے بابا رحیم انہی خیالوں میں کھویا تھا کہ ملنگ کی آواز نے اُسے چونکا دیا جو اُسے تازہ خبریں سُنا رہا تھا ۔

(جاری ہے)

سُنا ہے رحیمے نیا پاکستان بن رہا ہے بابا رحیم ایکدم لرز کے رہ گیا اور غیر یقینی کی کیفیت میں ملنگ کی طرف متوجہ ہوا جو اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھا ایک نئی جماعت بنی ہے جو نیا پاکستان بنانے جا رہی ہے اور بہت خون خرابے کا بھی ڈر ہے بابے رحیم کو یاد آیا اس سے پہلے بھی دو مرتبہ پاکستان بنا تھا ۔ کتنا خون خرابہ ہوا تھا ، پہلی مرتبہ جب ہندوستان سے بٹوارہ ہوا تھا اور اُسے بزرگوں کی قبروں کو چھوڑ کے نئے ملک پاکستان آنا پڑا تھا ، ہر طرف لاشیں اور خون تھا جن پر کسی مذہب کا نام نہیں تھا نہ ہی قومیت کا بس بے جان جسم اور گاڑھا سُرخ خون ۔
دوسری مرتبہ جب آدھا پاکستان الگ ہوا تھا تب بھی ریڈیو پر خون خرابے کی خبروں کے علاوہ کُچھ بھی نہیں تھا ۔

کتنے انسان مارے گئے تھے پر سب اُن پر بنگالی اور غیر بنگالی کی چھاپ لگا کے اس قتلِ عام کو تمسخر میں اڑا رہے تھے ۔ اب تیسرے پاکستان کی خبر نے رحیمے کو بہت بے چین کر دیا تھا وہ جلدی جلدی اپنی بکریوں کو لے کے گھر کی طرف چل دیا ، وہ رات بڑی بے چینی میں گُزری ،اگلی صبح تڑکے رحیما اپنے بستر سے نکلا اور مسجد کی طرف چل دیا ، نماز کے بعد مولوی صاحب نے بڑے جذباتی انداز میں بیان کیا کہ ایک بہت بڑے اور پہنچے ہوئے مولوی صاحب پاکستان آ رہے ہیں ، اللہ کا خاص کرم ہو گیا کہ اب اسلامی انقلاب آئے گا اور سارے آسیب دور ہو جائیں گے جو لوگوں کی بے حیائی کی وجہ سے ہمارے مُلک سے چمٹے ہوئے ہیں بابا رحیم مولوی صاحب کی باتیں سُن کے پُرسکون ہو گیا تھا ، اب بس ایک فکر تھی کہ بڑے مولوی صاحب کو بھینٹ کون دے گا ، اسی سوچ میں گُم رحیم ایک فیصلہ کر چُکا تھا کہ وہ اپنی بکریاں بیچ کے سارے پیسے بڑے مولوی صاحب کو نذر کرے گا تا کہ وہ پاکستان سے آسیب بھگا سکیں اگلے کُچھ دن رحیم کو اپنی بکریں بیچنے میں لگ گئے ، اس دوران مسجد سے خبریں ملتی رہیں کہ بڑے مولوی صاحب بہت جان توڑ کوشش کر رہے ہیں ہر طرف اُن کا ہی تذکرہ تھا جب رحیم ساری رقم اکٹھی کر چُکا تب تک بڑے مولوی صاحب اسلام آباد پہنچ چُکے تھے ، بابا رحیم جلد سے جلد اُن کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا تھا اگلے دن رحیما فیصل آباد جانے والی بس میں سوار ہو گیا ، وہاں سے پھر اُسے اپنی منزل اسلام آباد کی بس پکڑنی تھی فیصل آباد پہنچ کے پتہ چلا کہ اگلی بس ابھی لیٹ ہے ، بابا وہیں چائے پینے ایک کینٹین میں چلا گیا ، وہاں بہت رش تھا رحیما بھی چائے کا کپ پکڑے اندر جا کے بیٹھ گیا ، اندر ٹی وی چل رہا تھا اور ایک آدمی گلا پھاڑ پھاڑ کے اعلان کر رہا تھا کہ بڑے مولوی صاحب کا انقلاب آ چُکا ہے ، بار بار اسکرین پر جھلکیاں دکھائی جا رہی تھیں کہ مولوی صاحب بڑے تفخر کے ساتھ کنٹینر پر کھڑے اپنی جیت کے اعلان فرما رہے ہیں ساتھ ہی اسکرین پر اگلا سین شروع ہو گیا ، ہر طرف دھواں آگ گالی گلوچ کرتے نعرے مارتے لوگ پارلیمنٹ اور مُلحقہ قومی عمارات پر دھاوا بول رہے تھے اور ٹی وی والا پھر گلا پھاڑ پھاڑ کے بے شمار لوگوں کے مارے جانے کے دعوے کر رہا تھا ۔

رحیمے کو اپنا سانس گھُٹتا محسوُس ہوا ، ساری دُنیا جیسے تیز تیز گھوم رہی ہو اور ایسے ہی وہ بے جان ہو کر زمین پر گر گیا ، لوگوں میں کھلبلی مچ گئی ، کوئی پانی لینے بھاگا کوئی اسپتال لے جانے کو رکشہ رکوانے لگا پر آسیب جاتے جاتے نُقصان کر گیا تھا ، بابا رحیم تیسرا پاکستان دیکھنے سے پہلے ہی دم توڑ گیا تھا

Browse More Urdu Literature Articles